امریکہ کے مغرب سے مشرق کا سفر کیلیفورنیا سے نیو جرسی

امریکہ کے مغرب سے مشرق کا سفر کیلیفورنیا سے نیو جرسی
 امریکہ کے مغرب سے مشرق کا سفر کیلیفورنیا سے نیو جرسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کیلیفورنیا میں دو مہینے سے زائد عرصہ گزر گیا تو امریکہ کے مشرق میں واقع شہروں میں اپنے بھائی، عزیزوں اور دوستوں سے ملنے کی ٹھانی۔ یہ قصد اتنا آسان نہ تھا کیونکہ ملک امریکہ پورے براعظم پر مشتمل ہے جو شمالی امریکہ کے نام سے جانا جاتا ہے ، اڑتیس (38)لاکھ مربع میل پر محیط چین کے برابر یہ براعظم اتنا بڑا ہے کہ اس میں ہندوستان ، پاکستان، ایران، افغانستان، عراق، سعودی عرب سمیت شام اور ترکی بھی سما سکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جب سلطنت عثمانیہ اس سے بھی بڑے علاقے پر محیط ہوا کرتی تھی اور گوری عورتیں اپنے بچوں کو ترکوں کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں لیکن اب تو ہم گورے اور گورے ترک بنے ہوئے ہیں۔ تبھی تو امریکہ آنے سے قبل ہماری سوچ کا دائرہ اس قدر محدود تھا کہ کلکتہ بھی دنیا کے دوسرے کونے پر محسوس ہوتا تھا ، لیکن یہاں آکر معلوم ہوا کہ کراچی سے کلکتہ کا فاصلہ ہوائی جہاز سے صرف 13سو میل جبکہ کیلیفورینا سے نیویارک کا فاصلہ اس سے تقریباً دوگنا ہے یعنی کراچی سے سنگاپور یا سوڈان کے برابر۔


یہ طویل سفر اگر ہم بس یا ٹرین کے ذریعے طے کرنے کا سوچتے تو اس کے لئے کم ازکم تین راتیں درکار ہوتیں، جبکہ ہوائی جہاز میں چھ گھنٹے لگتے ہیں اور ریل یا بس کی نسبت کرایہ بھی کم پڑتا ہے (کم فاصلے کے لئے ٹرین یا بس سستے پڑتے ہیں)چنانچہ طویل سفر کے اخراجات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم نے ہمت باندھی اور پہلے قیام کے لئے نیوجرسی کو منتخب کیا جہاں میرا عزیز ترین دوست مصدق رہتا ہے جس کے نام میں نے چالیس سا قبل سقوط ڈھاکہ پر اپنی کتاب، ’’پدما سرخ ہے‘‘ منسوب کی تھی۔ وہ خودبھی تو پاکستان وبنگلہ دیش کی تاریخ میں زندہ جاوید اس کتاب کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہے ! نیوجرسی ، نیویارک سے ستر میل کے فاصلے پر ہے۔ اور اگر رش نہ ہو تو ایک گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ پرنسٹن میں جہاں مصدق رہتا ہے ایک گھنٹے کی مسافت پر کئی ائرپورٹ واقع ہیں، جن میں سے پہنچنے کے لئے موزوں وقت، ٹریفک کے رش، اور ایسے ہی دیگر عوامل کوپیش نظر رکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے فلاڈلفیا ایئرپورٹ کا انتخاب کیا گیا۔


فلاڈلفیاتک کئی گھنٹوں کی اڑان کے بعد جب ہم ہوائی اڈے پر اترے تویہ دیکھ کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ہمارا خیرمقدم کرنے والوں میں ڈاکٹر محفوظ النسا بھی شامل تھیں جو مجھے چھوٹی بہن کی طرح عزیز ہیں۔ کیوں نہ ہوں کہ میری زندگی کے سب سے بڑے ایڈونچر میں جب زندہ بچنے کی بھی کوئی امید نہ تھی وہ پانچویں جماعت کی بچی کے طورپر ہرقدم میرے ساتھ تھیں اور یوں وہ بھی میری کتاب کے خاص کرداروں میں سے ایک ہیں۔ ان کے شوہر جو ہارٹ اسپیشلسٹ ہیں، ہارٹ سرجری سے متعلق کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ سے میکسیکو جاتے ہوئے انہیں نیوجرسی میں اپنے بھائی کے پاس کچھ دنوں کے لئے چھوڑ گئے تھے۔ ڈاکٹر محفوظ النسا کی موجودگی ، میری اہلیہ اور مصدق کی اہلیہ دونوں کے لئے اس لحاظ سے نیک فال ثابت ہوئی کہ تینوں خواتین مل کر تقریباً روزانہ ہی گھومتے پھرتے نیویارک نکل جاتیں۔ ہمارے لئے بھی یہ نیک فال یوں تھی کیونکہ دونوں دوستوں کو گپ شپ کے لئے کافی وقت مل گیا۔ پرنسٹن میں جہاں بھارتی اور پاکستانی نژاد امریکی کافی تعداد میں رہتے ہیں سب سے زیادہ قابلِ ذکر پرنسٹن یونیورسٹی ہے جس سے امریکہ کے تین صدر اور سپریم کورٹ کے متعدد جج وابستہ رہے ہیں۔


۔۔۔لیکن اس سے بھی بڑا اعزاز ممتاز سائنس دان آئن سٹائن کی اس ادارے سے نسبت ہے ، جنہوں نے یہاں 1921ء میں نظریہ اضافت پر پانچ لیکچر دیئے اور یونیورسٹی کی عطا کردہ اعزازی ڈگری قبول کی ۔ آئن اسٹائن نے اپنی زندگی کے آخری بائیس سال بھی پرنسٹن میں گزارے جہاں کے وہ ’’ایڈوانس اسٹڈی سنٹر‘‘سے وابستہ تھے۔ کئی سال قبل جب میں پرنسٹن آیا تھا تو پرنسٹن یونیورسٹی بھی دیکھنے گیا تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طرز تعمیر سے مشابہ اس وسیع وعریض یونیورسٹی کے اردگرد بھی علم کا ماحول کچھ یوں تھا کہ قریبی بازار میں کتابوں کی متعدد دکانیں تھیں جن میں رونق لگی ہوئی تھی۔ ایک دکان موسیقی سے متعلق تھی جس میں قدیم ترین موسیقی کے ریکارڈ بھی دستیاب تھے۔ سڑک کے کنارے انہماک سے مطالعے میں مصروف ایک شخص کا دیدہ زیب مجسمہ دل کو اس قدر بھایا تھا کہ میں نے اور مصدق نے اس مجسمے کے ساتھ تصویر جواب بھی فیس بک پر میرے پروفائل کے طورپر لگی ہے، بے انتہا پسند کی گئی تھی۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ پاکستان کے دوٹکڑے کرنے میں ہندوستان کی سازش کے حوالے سے جس کتاب کا میں نے گزشتہ کالم میں حوالہ دیا تھا ، وہ بھی اسی یونیورسٹی کے پروفیسر گیری جے باس کی لکھی ہوئی ہے۔ یہ کتاب امریکہ میں ممتاز دواساز ادارے کے شعبہ تحقیقات کے سربراہ ڈاکٹر مصدق حسین پی ایچ ڈی (بائیو کیمسٹری) نے مجھے تحفتاً دی تھی۔ وہی مصدق جن کے ذکر سے میں نے کالم کا آغاز کیا تھا۔

مزید :

کالم -