خان صاحب احتیاط کریں

خان صاحب احتیاط کریں
 خان صاحب احتیاط کریں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عمران خان سندھ کے دورے سے واپس آئے ہیں، تو اُن کے خلاف پیپلزپارٹی نے بھی تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیئے ہیں،جبکہ مسلم لیگ(ن) تو پہلے ہی عمران خان کو سوا نیزے پر رکھے ہوئے ہے۔ کپتان کو لوگ ایک آئیڈیل رہنما سمجھتے ہیں، جو اسٹیٹس کو کے خلاف ہے،جو مُلک میں تبدیلی لانا چاہتا ہے، جس کا جینا مرنا عوام کے ساتھ ہے،جو غریبوں کی بات کرتا ہے، جس کا نظریہ عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ کپتان کے ساتھ جو رہنما ہیں، شاید انہیں اِن باتوں کی خبر نہیں، وہ عمران خان کو ایک عام سیاسی رہنما سمجھتے ہیں، حالانکہ آئیڈیل رہنما اور عام رہنما میں بہت فرق ہوتا ہے۔ وہ کپتان کو اپنی حماقتوں سے کسی نہ کسی جگہ ایسا پھنساتے ہیں کہ اُن کا ایک آئیڈیل رہنما ہونا مشکوک ہو جاتا ہے، لوگ سوال کرنے لگتے ہیں کہ ایک عام سیاسی رہنما اور عمران خان میں کیا فرق ہے؟ اس کا کم از کم اُن لوگوں کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا، جو کپتان کو اپنا آئیڈیل سمجھتے ہیں۔


یہ کالم میں کپتان کی توجہ کے لئے لکھ رہا ہوں، شاید اُن کی نظروں سے گزرے اور وہ مستقبل میں ایسی باتوں سے اجتناب کریں جو اُن کے امیج کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ عمران خان اس بار جب سندھ گئے تو انہوں نے اندرون سندھ کے کئی شہروں کا دورہ کیا۔ وہیں انہوں نے یہ تاریخی بات بھی کی کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے سندھ کے ہاریوں کو جگایا تھا، اُن کے حقوق کا نعرہ لگایا تھا، اُسی طرح وہ بھی سندھ کے غریبوں کو جگانے آئے ہیں، اُن کی اس بات پر پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے تنقید کی اور تمسخر بھی اُڑایا، حالانکہ ایک لحاظ سے عمران خان نے ذوالفقا علی بھٹو کی لیڈر شپ کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ کپتان پر سندھ کے حوالے سے جو شدید تنقید ہو رہی ہے، اس کا تعلق اُن کھانوں سے ہے، جو وہ وڈیروں کے دستر خوانوں پر کھاتے رہے۔ سوشل میڈیا پر بھرے ہوئے دستر خوانوں پر اُن کی تصاویر کو اس کیپشن کے ساتھ پوسٹ کیا جا رہا ہے کہ ہاریوں اور غریبوں کی بات کرنے والا رہنما ہرن کے گوشت کی ڈشوں سے اپنی بھوک مٹا رہا ہے۔



مَیں سوچ رہا ہوں کہ عمران خان کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں، انہیں اس بات کا خیال کیوں نہیں آتا کہ خان صاحب خود کو دوسرے لیڈروں سے مختلف قرار دیتے ہیں، تو پھر انہیں ہر معاملے میں غیر روایتی کردار کا حامل نظر آنا چاہئے۔ پھر کیا یہ ضروری ہے کہ اُن کی آمد پر اس طرح کے دستر خوان سجائے جائیں۔ پھر زرداری اور نواز شریف پر عمران خان کی تنقید کیا معنی رکھتی ہے۔ کیا سادگی سے چار آدمی بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتے،کیا ایسے موقعوں پر تصاویر کھنچوانا ضروری ہے، یا دوسرے لفظوں میں ان لمحات کی تصویر کشی کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ مَیں دیکھ رہا ہوں کہ کپتان کا آئیڈیل پن رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے، حالانکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ اگر صورت حال یہی رہی تو آنے والے دِنوں میں کپتان بھی ایک روائتی سیاست دان بن کر رہ جائیں گے۔ خان صاحب بعض اوقات تو ایسی باریکیوں کا خیال رکھتے ہیں، لیکن اکثر اوقات انہیں بھول جاتے ہیں۔ انہوں نے ریحام خان سے شادی کے بعد ولیمہ ایک مدرسے کے غریب بچوں کے ساتھ کیا، تو اسے بہت سراہا گیا۔ اس بات نے اُن کے قد کاٹھ کو مزید بلند کر دیا، مگر بعدازاں وہ جہاں بھی گئے، اُن کے میزبانوں نے اُن کے لئے شاہانہ دعوتوں کا اہتمام کیا اور پھر اُن کی تصویریں بھی بنوائیں۔


اس سے پہلے عمران خان کی سوشل میڈیا پر جو تصویریں لگتی تھیں اُن میں کسی ٹرک ہوٹل، کسی غریب کی چارپائی اور کبھی اپنے کارکنوں کے ساتھ روٹی دال کھاتے نظر آتے تھے، اس بات سے اُن کی شخصیت کا امیج ایک درویش اور غریب پرور انسان کا بنتا تھا، اب انہیں درجنوں ڈشوں میں گھرا ہوا دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں، حیرت ہے کہ ایسے مواقع پر عمران خان سادگی کا درس دیتے ہوئے کھانے سے انکار نہیں کرتے،بلکہ کھانے میں پوری طرح شریک ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک معمول کی بات ہے، اگر کوئی میزبان اپنے اتنے بڑے مہمان کے لئے دس بیس ہزار کا کھانا چنوا دیتا ہے تو کوئی بڑی بات نہیں، مگر جب اِس بات کو عمران خان کی شخصیت اور دعوؤں کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے، تو حیرت ہوتی ہے۔ پھر اس کی تشہیر تو اور بھی نقصان دہ بات ہے۔


ر فتہ رفتہ یہ سوال بھی اُٹھنے لگا ہے کہ تحریک انصاف کا آئیڈیلزم کیا صرف عمران خان تک محدود ہے۔ باقی پارٹی رہنما روایتی سیاسی ہتھکنڈے اختیار کرنے کے لئے آزاد ہیں! مثلاً خیبرپختونخوا میں بلدیاتی ناظمین کے چناؤ پر سخت تنقید کی جا رہی ہے، جن میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سمیت پارٹی کے رہنماؤں، جن میں ارکان اسمبلی بھی شامل ہیں، کے رشتہ دار ناظمین بن گئے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک طرف عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کو اِس لئے سیاست میں حصہ لینے سے روک دیتے ہیں کہ اُن پر موروثی سیاست کا الزام نہ لگے اور دوسری طرف اُن کی پارٹی میں موروثی سیاست کی گنگا بہائی جاتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ عمران خان کا پارٹی پر کوئی کنٹرول نہیں، وزیراعلیٰ سرحد پرویز خٹک کو روک نہیں سکتے کہ وہ ہر سطح پر اقربا پروری کی جو روایت قائم کر رہے ہیں، اُسے ختم کر دیں۔ بھٹو کی ناکامی کا سبب بھی اُن کے ساتھی بنے تھے، جنہوں نے اُن کی طرف سے کی جانے والی زرعی اصلاحات تک ناکام بنا دی تھیں۔ کپتان اگر اپنا اور تحریک انصاف کا انفرادی تشخص قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے، تو پھر وہ اُس ووٹر کو کیسے اپنی طرف متوجہ کر سکیں گے، جو تبدیلی کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ تو کانٹوں بھرا سفر ہے، لیکن عمران خان کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ پھولوں بھرا راستہ ہے، اِس لئے جو چاہو کرو، منزل تو مل ہی جائے گی۔ منزل ایسے تھوڑی ملتی ہے، اُس کے لئے کشٹ کاٹنا پڑتا ہے۔


تحریک انصاف والوں کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ میڈیا اُن کی ہر بات پر نظر رکھے ہوئے ہے، کیونکہ خبر اُسی وقت بنتی ہے، جب دعوؤں کے برعکس حقائق سامنے آئیں۔ صوابی کے ناظموں نے منتخب ہونے کے بعد جو مجرا پارٹی سجائی اُس میں نوٹوں کی برسات کر دی۔ اُس پر تحریک انصاف کی قیادت نے ایکشن نہیں لیا۔ پیسے کو پانی کی طرح لٹانے والے ناظمین اب پیسہ کمائیں گے بھی اور لٹائیں گے بھی، بات کروڑوں کی بھی ہے۔ اگر مجرا پارٹیاں سجانے والے پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں، تو پارٹی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ دوسری جماعتوں سے عوام ہر بات کی توقع رکھتے ہیں،لیکن جب تحریک انصاف کے بارے میں ایسی کوئی خبر آتی ہے، جو روائتی سیاست کی نمائندہ ہو یا کرپشن کا بھید کھولتی ہو، تو عوام چونک پڑتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کپتان کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف میں ایسی باتوں اور ایسے لوگوں کی توقع نہیں رکھتے، لیکن یہ اعتماد اگر اِسی طرح ٹوٹتا رہا اور ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ سامنے آتے رہے، تو عوام اس آئیڈیلزم سے باہر نکل آئیں گے، جس میں عمران خان کی وجہ سے اب مبتلا نظر آتے ہیں۔


خان صاحب دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو للکارتے ہیں، آصف علی زرداری اور نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، یہ اُن کی سیاست کا مین تھیسز ہے، مگر کیا اس تھیسز کے سہارے وہ اپنی انفرادیت قائم رکھ سکتے ہیں۔ تاوقتیکہ وہ اپنے کردار و عمل اور پارٹی کے نظریے کو اس انفرادیت کے مطابق نہ ڈھالیں، بادی النظر میں یہ ممکن نہیں ہے، کیونکہ اب بہت سے ایسے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں، جو عمران خان کے تبدیلی کے نعرے کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں۔ خان صاحب کو اُن کا سیکیورٹی سٹاف یہ تو بتاتا ہو گا کہ انہوں نے کہاں جانا ہے اور کہاں نہیں جانا۔ کوئی انہیں یہ بتانے والا بھی ہونا چاہئے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا، مثلاً ایسا کوئی ایک آدمی بھی سندھ کے دروے میں ان کے ساتھ ہوتا، تو انہیں کھانے کی ڈشوں سے سجے ہوئے میز پر صدارت کرنے کے انداز میں بیٹھنے سے روک دیتا، کیونکہ خود خان صاحب یہ کہتے ہیں کہ مُلک کی60فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کھانے کے پیسے نہیں ہوتے، اب اگر آپ درجنوں ڈشوں والے میز پر بیٹھ کر لذتِ کام و دہن کا مزا لیں گے ، تو یہ60فیصد لوگ آپ کے ہمنوا کیسے بن سکیں گے؟

مزید :

کالم -