کا ضمنی انتخاب، متحدہ پاکستان کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گا؟

کا ضمنی انتخاب، متحدہ پاکستان کے مستقبل کا بھی فیصلہ کرے گا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کراچی پہنچ گئے ہیں۔ ایئر پورٹ پر میڈیا سے اور پاکستان سٹیل ملز کے احتجاجی ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو سخت ہدفِ تنقید بنایا اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن، ایف بی آر، نیپ کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ یہ سطور شائع ہوں گی توساتھ ہی نشتر پارک میں تحریک انصاف کے تحت ہونے والے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نام سے جلسے میں عمران خان کے خطاب کی تفصیل بھی سامنے آ جائے گی، جس سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہ جلسہ جماعتی سیاست سے بالاتر تھا کہ نہیں؟ کیونکہ تحریک انصاف اور خود عمران خان نے اس جلسے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ ہماری احتجاجی سیاست کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد جماعتی سیاست سے بالا تر ہو کر کراچی کے شہریوں کو ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرہ پر جمع کر کے پاکستان کی سلامتی خود مختاری اور قومی یکجہتی کے مخالفوں کو یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اس نعرہ پر تمام جماعتوں کے لوگ اور شہری یک جان ہیں۔ تفصیلات سامنے آئیں گی تو قارئین کو اندازہ لگانا آسان ہو جائے گا کہ انہوں نے کسی حد تک اپنے کہے ہوئے الفاظ کا پاس رکھا ہے؟ اس پر تفصیل سے گفتگو آئندہ ہو گی۔

اب بات کرتے ہیں کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب کی جو 8ستمبر کو ہو رہا ہے۔ یہ نشست 2013ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر اشفاق سنگی نے حاصل کی تھی، جنہوں نے الطاف حسین سے بغاوت کا اعلان کر کے مصطفےٰ کمال اور انیس قائم خانی کی جماعت ’’پاک سر زمین‘‘ میں شامل ہو کر یہ نشست خالی کر دی ہے۔
اس نشست پر اس سے قبل ایم کیو ایم کے ’’نثار پنہور‘‘ بھی رکن اسمبلی رہے۔2002ء تک یہ نشست پیپلزپارٹی کے پاس تھی۔1997ء اور 2002ء میں اس نشست پر پیپلزپارٹی کے عبداللہ مراد بلوچ کامیاب ہوتے رہے ہیں، جنہیں 2004ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ عبداللہ مراد کے قتل کے بعد2004ء کے ضمنی انتخاب اور اس کے بعد 2008ء اور2013ء کے عام انتخابات میں یہ نشست ایم کیو ایم نے حاصل کی تھی۔پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف اور دیگر امیدوار بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ’’متحدہ قومی موومنٹ پاکستان‘‘ کے صدر ڈاکٹر فاروق ستار یہ نشست حاصل کرنے کے لئے پُرامید ہیں۔انہوں نے انتخابی مہم کے دوران پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ’’ضمنی انتخاب میں اپنے قائم کردہ ریکارڈ ووٹ حاصل کرنے کے ریکارڈ سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے ریکارڈ توڑیں گے‘‘ جبکہ پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ2004ء کے ضمنی اور2008ء اور 2013ء کے عام انتخاب میں یہ نشست ہم سے ایم کیو ایم نے گن پوائنٹ پر جیتی تھی، جو آزادانہ انتخاب میں پیپلزپارٹی دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے فوج کی نگرانی میں ضمنی انتخاب کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ بعض علاقوں میں دھاندلی کا خطرہ ہے۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے فوج کی نگرانی میں ضمنی انتخاب کرانے کی تحریری درخواست الیکشن کمیشن کو دی ہے یا نہیں، کیونکہ فوج خود تو اپنی نگرانی میں الیکشن کرانے کا فیصلہ نہ کر سکتی ہے اور نہ ہی وہ ایسا کرے گی۔ الیکشن کمیشن درخواست کرے تو وہ کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز ہے اب تک کی اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس کوئی ایسی درخواست ایم کیو ایم یا کسی دوسری جماعت کی طرف سے نہیں آئی۔
البتہ رینجرز کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ پولنگ سٹیشنوں پر ہو گی، حساس پولنگ سٹیشنوں کے باہر اور اندر رینجرز کے جوان سیکیورٹی اور نگرانی کے فرائض انجام دیں گے،پیپلزپارٹی کو اس بار ایم کیو ایم پر ایک برتری یہ حاصل ہے کہ اس علاقے سے مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ کے بیٹے دوبارہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے ہیں۔ خود عبدالحکیم بلوچ مسلم لیگ(ن) سے بددل ہو کر وفاقی حکومت میں وزیر مملکت کے عہدہ سے مستعفی ہونے کا اعلان کر چکے ہیں۔ عبدالحکیم بلوچ مسلم لیگ(ن) میں شامل ہونے سے پہلے پیپلزپارٹی میں تھے۔ وہ پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر بھی رہے ہیں اس نشست کی اہم بات یہ ہے کہ اس میں شہری اور دیہی علاقے شامل ہیں، دیہی میں1970ء کے انتخاب سے لے کر اب تک ہمیشہ ووٹ پیپلزپارٹی کے امیدواروں کو ملتے ہیں۔1970ء اور1977ء میں اس علاقے سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر عبدالحفیظ پیرزادہ(مرحوم) قومی اسمبلی کے رکن رہے ہیں تاہم پیپلزپارٹی کے مقابلے میں 1970ء میں جماعت اسمبلی کے امیدوار سید ذاکر علی (مرحوم) نے بھی عبدالحفیظ پیرزادہ کے مقابلے میں30ہزار سے زیادہ ووٹ لئے تھے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ علاقہ تنہا نہ تو پیپلزپارٹی کے حامیوں پر مشتمل ہے اور نہ ہی اس علاقے کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا درست ہو گا کہ یہ پیپلزپارٹی کے مخالفوں کا گڑھ ہے۔8ستمبر کے ضمنی انتخاب سے اندازہ ہو جائے گا کہ اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک اور ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں کام کرنے والی ایم کیو ایم پاکستان کے ووٹ بینک کی پوزیشن کیا ہے۔
اب کچھ ذکر الطاف حسین کے حق میں لگنے والے اس بینر کا جس سے لاتعلقی کا اعلان لندن سے الطاف حسین کے وفادار مصطفےٰ عزیز آبادی نے کیا ہے اور اس کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا دیا ہے ’’قائد کا جو غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے‘‘۔ یہ نعرہ1991ء میں ’’نائن زیرو‘‘ کے باہر اُس وقت لگایا گیا تھا، جب آفاق احمد خان اور عامر خان کی قیادت میں الطاف حسین سے بغاوت کی گئی اور نعرہ ایسا کرنے والوں کے خلاف لگایا گیا ۔ یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ یہ نعرہ جس نے لگایا تھا وہ خود بھی اسی ’’جرم‘‘ کا مرتکب ہو کر لقمہ اجل بنا تھا۔
آج تو ایک بینر لگا تو سارا میڈیا اس پر بریکنگ نیوز دے رہا تھا۔1991ء میں پورا شہر ’’قائد کا جو غدار ہے، موت کا حق دار ہے‘‘ کے بینروں سے بھر دیا گیا تھا، مگر میڈیا سمیت کسی کے کان پر جون نہیں رینگی تھی، سب سے پہلے ہفت روزہ ’’زندگی‘‘ نے اپنے ٹائٹل پر اس کی تصویر شائع کرنے کی جرأت کی تھی اور اپنے اداریہ میں یہ لغو اور خلاف آئین و قانون نعرے پر کھل کر تنقید کی تھی جس کی سزا کراچی میں اس کے نمائندے کے گھر پر فائرنگ کر کے دی گئی تھی۔ ایم کیو ایم سیاسی حقیقت ہے جس سے انکار کوئی ذی ہوش نہیں کر سکتا، مگر اب الطاف حسین سے اظہارِ وفاداری کرنے والے کے لئے پاکستان میں سیاست کرنا قانونی طور پر بھی ممکن نہیں ہو گا۔ اس کا ادراک ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں جمع ہونے والے الطاف حسین کے سابق وفاداروں کو بخوبی ہے۔ دانشمندی کا تقاضہ بھی ہے اور قومی مفاد بھی اسی میں ہے کہ ان کو آزادانہ سیاست کرنے کا موقع دیا جائے۔ البتہ قومی سیاست کی دعویدار جماعتوں کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کراچی کو قومی سیاست کے دھارے میں شامل کرنے کے لئے اس کے بنیادی اور حقیقی ایشوز کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں اور یہاں کراچی کو فتح کرنے کے زعم میں مبتلا ہو کر جلسے جلوس کرنے نہ آئیں، بلکہ مستقل بنیادوں پر یہاں اپنا تنظیمی ڈھانچہ اور گلی محلے کی سطح پر اپنا مضبوط نیٹ ورک بنانے کی سعی کریں، تب ہی سیاسی کلچر فروغ پائے گا، جس کے بعد کسی پاکستان دشمن کے لئے سیاست کرنا ناممکن ہو گا جہاں تک معاملہ ہے سندھ ہائی کورٹ کے باہر اور ریگل چوک پر ’’قائد کا جو غدار ہے موت کا حق دار ہے‘‘ کے بینر لگانے کا فرمائشی پروگرام کسی ایسے شخص یا افراد کا ہے جس نے ’’سلمانی ٹوپی‘‘ پہنی ہوئی ہے اور جس کا چہرہ قریب ہی واقع بہت سے دفاتر کے سیکیورٹی کیمرے بے نقاب نہیں پا رہے۔یہ بینر رات کی تاریکی میں نہیں لگے ، دن کی روشنی میں اس وقت لگے ہیں۔ جب پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔ ریگل چوک کراچی کا معروف ترین کاروباری علاقہ ہے جس کی ہر دوکان کے باہر سیکیورٹی کی وجہ سے کیمرے نصب ہوتے اور دیگر حفاظتی اقدامات کے باوجود بینر لگانے والوں کا پتہ لگ نہیں پا رہا تو سیکیورٹی انتظامات پر سوالیہ نشان اور سوالات تو اُٹھیں گے جس کے درست اور بروقت جواب نہ ملنے کا سارا فائدہ پاکستان دشمنوں کو ہو گا اس کا ادراک سارے اداروں کو کرنا ہو گا۔
اس مرتبہ یوم دفاع پاکستان بھی ملی جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ سرکاری اور نجی طور پر شہدا کو خراج عقیدت اور غازیوں کی تحسین کی گئی۔ مزار قائد پر رونق رہی، گارڈز کی تبدیل قابلِ دید منظر تھا۔

مزید :

ایڈیشن 1 -