پولیس کیسے درست ہوگی ؟
ایلاف کلب کے اراکین کسی طرح کی سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر گذشتہ کچھ عرصے سے امن و امان اور عدل و انصاف کی ناگفتہ بہ صورت حال پر مایوسی کا اظہار کررہے تھے۔ ان کے نزدیک حکومتوں کے ہاتھوں لٹے پٹے مظلوم عوام یہ سوچ کر اکثر حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے ہیں کہ آخر ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور خود غرضی کی کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں ؟ ملک میں کسی کو انصاف ملتا ہے، نہ کسی کا مال و جان محفوظ ہے۔ چور لٹیرے اور قبضہ گروپ سب کے سامنے دھندناتے پھرتے ہیں۔ رشوت اور بدعنوانی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بھی سب کے سامنے ہے۔ افراد اور اداروں کی کارکردگی کے متعلق ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کی جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجودکیا حکمران اس ابتر صورت حال سے بے خبر ہیں ؟ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور بے ہنگم ٹریفک نے ہمارے قومی چہرے کو داغدار بنا رکھا ہے۔ ٹریفک کی صورت حال بہتر کرنے اور جرائم و دہشت گردی سے نجات دلانے کی ذمہ داری پولیس کی ہے ۔ کیا کبھی پولیس کو سیاسی مداخلت سے نجات دلا کر خالصتا پیشہ وارانہ انداز میں اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے آزاد کیا جائے گا ؟ ان سوالات کے جواب کے لئے پولیس کے ذہین، قابل اور اچھی شہرت کے حامل ڈی آئی جی پروٹوکول راجہ رفعت مختار کو مہمان مقرر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ۔
راجہ رفعت مختار نے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ہمارے ہاں بھی امن و امان، تعلیم اور صحت ہی کے شعبوں پر سب سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے، لیکن بدقسمتی سے ان تینوں شعبوں کے لئے فنڈز کی ہمیشہ کمی رہی ہے۔ انگریز کے زمانے میں پولیس کا ایک باقاعدہ سسٹم قائم کیا گیا تھا۔ ہر تھانے کی بلڈنگ کے ساتھ سپاہیوں کی بیرکس اور افسروں کی رہائش کا انتظام کیا جاتاتھا، ہرچھوٹی سے لے کربڑی ضرورت کا خیال رکھا جاتا، مگر آ ج یہ صورت ہے کہ آٹھ گھنٹے کے بعد تھانے میں کوئی نفری موجود نہیں ہوتی۔ اس دوران اگر تھانے پر حملہ ہوجائے تو کوئی دفاع کرنے والا ہی موجود نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ خرابی یہ بھی ہے کہ پورے ملک میں محکمانہ احتساب کے لئے پولیس کا اپنا کوئی خود کار نظام ہی موجو د نہیں۔ انگریز کے تربیت یافتہ افسر بھی نہیں رہے۔ ویسے بھی ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کو ذلیل کرکے خوش ہوتا ہے اور اسی میں اپنی عزت سمجھتا ہے۔ تھانوں میں آنے والی درخواستوں میں سے اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔ لوگ آپس میں ایک دوسرے کا حق تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوتے ہر کوئی ذاتی مفاد کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ پورے معاشرے میں دھن ، دھونس اور دھاندلی کا کلچر پیدا ہوجائے تو پھر کوئی ایک محکمہ کیا کرسکے گا۔ اصلاح اور بہتری کے لئے بہت سختی کرکے بھی لوگوں کوسیدھا کیا جاسکتا ہے، سختی کی صورت میں کسی کو بگڑنے اور غلط کام کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن سختی کی جائے تو پھر ظلم و زیادتی کئے جانے کا شور اٹھنے لگتا ہے، لیکن تاریخ کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ بگاڑ کو ختم کرنے کے لئے صرف سختی ہی کا ہتھیار کارگر ثابت ہوا ہے۔
ہمیں ابتدائی عمر ہی سے سکول اور گھر میں بچے کو اچھے اخلاق اور غلط و صحیح کی تمیز سکھانی چاہئے۔ اپنے حق کو پہچاننے اور دوسرے کا حق اسے دینے کی تربیت ہی سے ہم معاشرے کو اچھے انسان دے سکتے ہیں۔ معاشرے میں اچھے انسانوں کی اکثریت ہوگی تو اقلیتی برے لوگ خودبخود دب جائیں گے، لیکن اگر معاشرے کی اکثریت بگڑی ہوئی ہو تو اچھے لوگ کونے میں لگا دئیے جاتے ہیں۔ دراصل پولیس بھی معاشرے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ۔ جب تک پولیس کو سیاستدانوں کی بے جا مداخلت سے نجات دلا کر آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا، وہ درست کام نہیں کرسکتی۔ جہاں جہاں بھی پولیس سیاست سے آزاد ہوئی ہے، وہاں بہتری پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ ابھی چند روز پہلے کی بات ہے کہ ایک رکن اسمبلی ایک تھانے میں گیا اور حوالات توڑ کر اپنے بندے چھڑا کرلے گیاتھا،جاتے ہوئے تھانے والوں کو کہہ گیا کہ تم اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ کر دیکھ لینا۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ دس افراد ایک مصروف سٹرک پر ٹریفک بند کرکے احتجاج کرتے ہیں اور وہاں پچاس پولیس والے کھڑے ان کا منہ دیکھتے رہتے ہیں ۔ پولیس کو اجازت نہیں ہوتی کہ ان دس افراد کو سٹرک سے ہٹا کر ٹریفک بحال کرسکیں۔ اگر لوگ خود اصلاح کے لئے کوشش نہیں کریں گے ، پولیس ریفارمز کا مطالبہ نہیں کریں گے تو یہ سب کچھ کس طرح درست ہوگا ؟ اگر عوام ان ایشوز پر زور دیں، ایسے مطالبات شدت سے اٹھائیں تو پھر اب نہیں تو کم از کم آئندہ انتخابات میں دیکھ لیں گے کہ سیاسی جماعتوں کا منشور ہی بدلا ہوا ہوگا۔ اس طرح عوام کو اپنے حقیقی مسائل کا حل مل سکے گا۔
بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ عام انتخابات کے دوران بھی اپنے ذاتی اور خاندانی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں اور ملک کے بنیادی مسائل کو بھول جاتے ہیں۔ مغرب میں اگر کوئی شخص جھوٹ بولے تو وہ دوسروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ ہمارے ہاں نہ جھوٹ کی کوئی سزا ہے، نہ سماجی طور پر اسے کوئی برائی سمجھا جاتا ہے سیاستدانوں میں تو جھوٹ بولنے کا باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے۔ مَیں آپ کو ایک بہت اہم حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جس شہر کے تاجر بددیانت ہوجائیں، اس شہر میں کبھی امن و امان قائم نہیں ہوسکتا۔ جس معاشرے میں جھوٹ اور بددیانتی عام ہوجائے، وہاں کبھی سکون نہیں ہوسکتا۔ آج ہم اگر مسائل کے حل پر غور کرنے بیٹھے ہیں تو مَیں آپ کو یہ دعوت دینا چاہتا ہوں کہ ہم سب اپنا کام ٹھیک طرح کریں اور باقی سب کچھ بھول جائیں تو اس سے پورا معاشرہ درست ہوجائے گا۔ معاشرے میں لوگوں کو احساس تحفظ نہیں ۔ اگر ہر کسی کو معلوم ہو کہ اس کے ساتھ جو بھی ہوگا، سب درست ہوگا، کوئی اس کی ذات کو بلاوجہ نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور کوئی اس کی جائیداد پر قبضہ نہیں کرسکے گا تو پھر کوئی مسئلہ باقی نہیں رہ جاتا۔ آخر اس ملک کی تمام جائیدادوں کا محافظ کون ہے؟اس سلسلے کی تمام باریکیاں عام آدمی نہیں سمجھتا ۔ جب آپ پر واضح ہی نہیں کہ آپ کسی جائیداد کے مالک ہیں یا نہیں تو پھر جو چاہے آپ کی جائیداد پر قبضہ کر لے۔ ایسا قبضہ حکومت بھی کسی سے نہیں چھڑا سکتی۔ دراصل آپ کی حفاظت کی ذمہ دار بھی حکومت ہے جب آپ سے کچھ غلط ہوجائے تو اس معاملے کو دیکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری پولیس کے ذریعے پوری کی جاتی ہے۔ پولیس نے ہی تفتیش کرکے جرم کی نوعیت کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح سیکیورٹی کا احساس پولیس سے وابستہ ہے۔ اگر آپ کو تحفظ کا احساس ہوگا تو آپ حکومت کو بھی صحیح سمجھیں گے۔ انگریز نے اس مقصد کے لئے تھانے کو مضبوط بنایا تھا، اس کو امن و امان کی ذمہ داری سونپی تھی۔ اس کے علاوہ ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر کو مضبوط بنایا گیا تھا۔ ان اداروں کو کمزور کرنے کی وجہ سے آپ کے ہاں ہمیشہ مسائل رہے ہیں۔ سینٹر آف پاور کے ساتھ ذمہ داری ہوتی ہے، اسے کمزور بنا دیا جائے تو کچھ بھی قابو میں نہیں رہتا۔ اگر کسی کو قانونی اور آئینی طور پر اختیارات حاصل ہوں ، تو پھر ذمہ دار بھی وہی ہوتا ہے۔ اگر اس کے یہ اختیارات کوئی دوسرا استعمال کررہا ہو، جس پر ذمہ داری نہیں، تو اس سے معاملات کے بگڑنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ہمارا ایک بڑا مسئلہ نااہلی بھی ہے ۔
ہمارے ہاں اہل اورماہر لوگوں کا قحط ہے۔ ہم اپنے افراد کی بہتر تربیت اور فنی مہار ت پر توجہ ہی نہیں دے رہے۔ پولیس برے حالات میں کام کررہی ہے۔ جہاں تک جرائم کا تعلق ہے، ا ن کے سماجی ، نفسیاتی اور اقتصادی محرکات ہوسکتے ہیں۔ دراصل سوشل سائنسز کے اس طرح کے کوئی لاز نہیں ہوتے جس طرح کے سائنس کے ۔ جرائم جیسے بھی ہوں، دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ان کے سلسلے میں کس رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ دراصل ہر معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کے حل کے سلسلے میں عوام کے رد عمل ہی سے فرق پڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک امریکہ میں سب سے زیادہ لوگ جیلوں میں ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ ہمیں سوچنا ہے۔ ہم سب نے اپنی اچھی سوچ پر عمل بھی کرنا شروع کردیا تو معاشرے میں انقلاب آجائے گا، سب درست ہوجائے گا ! ۔۔۔ ایلاف کلب کے ارکین سے بریگیڈئیر ریاض حیدر ، خلیفہ ضیاء الدین، محمد عظیم ، توقیر خان، عمر مبین، مجید غنی، ڈاکٹر شریف اور عظیم اشرف نے موضوع پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔