افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اشفاق احمد کی آج 14ویں برسی

افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اشفاق احمد کی آج 14ویں برسی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ترنڈہ محمدپناہ(نمائندہ خصوصی) اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس، ناول نگار، مترجم اور براڈ کاسٹر اشفاق احمدکی آج چودہویں برسی منائی جائے گی۔ ان کا ڈرامہ سیریل ایک محبت سو افسانے پاکستان ٹیلی وژن کی لازوال ڈرامہ سیریل ہے اشفاق احمد خان ہندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں ڈاکٹر محمد خان کے گھر 22 اگست، 1925ء کو بروز پیر پیدا ہوئے اشفاق احمد ایک کھاتے پیتے پٹھان گھرانے (بقیہ نمبر14صفحہ12پر )

میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد ایک قابل محنتی اور جابر پٹھان تھے۔ جن کی مرضی کے خلاف گھر میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ گھر کا ماحول روایتی تھا۔ بندشیں ہی بندشیں تھیں۔اشفاق احمد کی پیدائش کے بعد اُن کے والد ڈاکٹر محمد خان کا تبادلہ خان پور (انڈیا) سے فیروز پور ہو گیا۔ اشفاق احمد نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز اسی گاؤں فیروز پورسے کیا۔ اور فیروز پور کے ایک قصبہ مکستر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بقول اے حمید:’’اشفاق احمد کا حویلی نما آبائی مکان محلہ ہجراہ واری پتی میں واقع تھا۔ اس ایک منزلہ مکان کے سامنے ایک باڑہ تھا جس میں گھوڑے بھینس اور دوسرے جانور بندھے رہتے۔ اسی قصبے مکستر کے اسکول میں اشفاق احمد نے 1943ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔اشفاق احمد نے ایف۔ اے کا امتحان بھی اسی قصبہ فیروز پور کے ایک کالج ’’رام سکھ داس‘‘ سے پاس کیا۔ اس کے علاوہ بی۔اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ فیروز پور کے ’’آر، ایس،ڈی‘‘RSD کالج سے پاس کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمداپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پور (بھارت) سے ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔ پاکستان آنے کے بعد اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور کے ’’شعبہ ارد و‘‘ میں داخلہ لیا۔ جہاں کل چھ طلباؤ طالبات زیر تعلیم تھے۔ کالج میں انگریزی کے اساتذہ اردو پڑھایا کرتے تھے۔ کتابیں بھی انگریزی میں تھیں،جبکہ اپنے وقت کے معروف اساتذہ پروفیسر سراج الدین، خواجہ منظور حسین،آفتاب احمد اور فارسی کے استاد مقبول بیگ بدخشانی گورنمنٹ کالج سے وابستہ تھے۔اور یہ سب اشفاق احمد کے استاد رہے۔ اُس زمانے میں بانو قدسیہ (اہلیہ اشفاق احمد) نے بھی ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔جب بانو نے پہلے سال پہلی پوزیشن حاصل کی تو اشفاق احمد کے لیے مقابلے کا ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوا۔ انھوں نے بھی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالِ آخر میں اشفاق احمد اوّل نمبر پر رہے۔ جبکہ بانو قدسیہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی ’’یہ وہ دور تھا جب اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں اردو کی کلاسیں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں.7 ستمبر، 2004ء کو جگر کی رسولی کی وجہ سے ان کااچانک انتقال ہوا۔
اشفاق احمد