بھوک اور ایمان
جس زمانے میں ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے،اس زمانے میںآدھی یونیورسٹی سرخ اورآدھی سبزہوتی تھی۔وہاں پرلیفٹ اوررائٹ کامقابلہ ہوتاتھااورنظریات کے متعلق مباحث ہوتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ ہم تین دن تک اس موضوع پربات کرتے رہے کہ اگرمیں سڑک عبورکرتے ہوئے حادثے کاشکارہوجاؤں تویہ حادثہ ہو گا یا میرا مقدر ہوگا۔ ایک دن مجھے بھوک لگی تھی ۔میں نے اپنی ایک ساتھی سے کہاکہ میرے لیے بھی روٹی لگوالولیکن اس نے کہاکہ اس سے روٹی مانگوجس کے متعلق تم تین دن سے بحث میں مصروف تھے۔میں توہین کے احساس میں گم ہوگیا اورپیدل چلتاہوابہت دورنکل آیا۔ میں سوچ رہاتھاکہ خداکس کام کاجومجھے ایک وقت کی روٹی نہیں دے سکتا۔بہرحال میں نے کسی سے پیسے مانگے اورجب میں نے روٹی لی ،اس پردال ڈالی اورکھائی تواس کھانے کی لذت میںآج تک نہیں بھول سکا۔پھرمیں نے باہرلگے نلکے سے پانی پی کراپنی پیاس بجھائی۔نلکے میں سے جوپانی بہتاجارہاتھا،وہی پانی آگے موجود کتابھی پی رہاتھا۔میں سوچ رہاتھاکہ فاصلہ تودوچارفٹ کاہی ہے،اگرخدانے انسان کوپیٹ نہ لگایاہوتا،توانسان کی نفسیات بہت مختلف ہوتی۔ انسان روٹی کے ایک ٹکڑے پربک سکتاہے ۔یقیناً میراہی محمدﷺتھے جنہوں نے فرمایاتھاکہ بھوک،انسان کے ایمان کوخطرے میں ڈال دیتی ہے۔اس خطرہ سے نکلنے کے لئے ایمان ا ور کردار چاہئے۔
ہمیں نوجوانوں کی کردارسازی پرکیوں زوردیناچاہیے ،مجھے اس کی ضرورت اس وقت تک محسوس نہیں ہوئی جب تک میری نظرسے یہ حدیث مبارکہ نہیں گزری۔ دین کوسمجھنے کے لیے دنیاکودوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں،ایک مغرب اورایک مشرق ہے۔اب ہمیں اپنے دین،اسلام کوکبھی بھی مشرقی نہیں سمجھناچاہیے کیونکہ کہ مغرب کادین بھی ہے۔نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں،مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہواآتی ہے۔ نبی اکرمﷺ جوکچھ کہتے ہیں وہ بلاشبہ حق ہے۔اس ضمن میں والدین کافرض ہے کہ وہ یہ خیال رکھیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت کیسے کرنی ہے۔اس کائنات کے اندرتربیت کاکوئی اصول نہیں ہے۔چور،یقیناًکہے گاکہ چوری اچھی چیزہے کیونکہ یہ اس کے لیے مفیدہے۔جوذخیرہ اندوزی کررہاہے،وہ کہے گاکہ اسے اس ذخیرہ اندوزی سے فائدہ ہورہاہے۔ہم بطورمسلمان خود فیصلہ کریں کہ ایک چیز درست ہے یاغلط ہے،یاپھرقانون کے ذریعے اس امرکافیصلہ ہوسکتاہے۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔