لا ریفارمز وقت کی اہم ضرورت ہے(آخری حصہ )

لا ریفارمز وقت کی اہم ضرورت ہے(آخری حصہ )
لا ریفارمز وقت کی اہم ضرورت ہے(آخری حصہ )

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسلامی معاشرہ انصاف کی گھر کی دہلیز تک فراہمی کا داعی ہے سستا ، فوری اور بروقت انصاف عوام کی دہلیز پر ،ووٹ کے لئے تواچھا نعرہ ہے ہی لیکن اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو خدمت خلق کا عمدہ ذریعہ بھی ہے۔کسی بھی معاشرتی اور اخلاقی طور پر عمدہ اور مضبوط نظام مملکت میں عدالتیں اپنا دروازہ بند نہیں کرتیں اور انصاف کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا اور جہاں پسے ہوئے طبقوں کی بھر مار ہو وہاں تو ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے جس سے سستا فوری اور منصفانہ انصاف ممکن ہوسکےَ۔مغرب نے بہت پہلے از خود نوٹسز سے جان چھڑالی تھی جس سے 1215 کے میگنا کارٹاکے مطابق ہائی شیرف کے اعلٰی عدالتی اور انتظامی ماورائے پارلیمان اور عدالت کسی طاقت کا تاثر ابھرتا تھا۔ اب سپریم کورٹ میں از خود نوٹسز کا تصور ہی نہیں ہے اور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن کے ذریعے کوئی سائل رجوع کرسکتا ہے لیکن ہائی کورٹ بھی ازخود نوٹس سے ماورا ہے تاوقتیکہ عدالتی حکم پر عمل درآمد میں تاخیر یا حکم عدولی ہو ۔
تاریخ کا ایک قیمتی سبق ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔ ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے دور میں نہیں بلکہ آصف زرداری، عمران خاں ،جنرل مشرف ،نواز شریف ، اور جسٹس ثاقب نثار کے دور میں رہ رہے ہیں جہاں کسی سے کچھ بھی توقع کیا جا سکتا ہے۔طاقتور چیف جسٹس افتخار چوہدری بھی مفاد عامہ کے تحت اس طاقت کے بے لگام گھوڑے سے بے انصافی کے عفریت پر مکمل قابو نہ پا سکے اور بحالی کے بعد بھی 3 نومبر 2007 کو پھر ایمرجنسی لگ گئی۔ پھر بھی ماننا چاہیے کہ انہوں نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے نئی جوڈیشل پالیسی دی اور عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کرنے کی کوشش کی جو کہ باوجود ریٹرننگ آفیسرز کے الیکشنز کی وجہ سے انتظامیہ کے ساتھ تضادات اور تنازعات کا شکار بنی لیکن اس پر عمل ہوا اور غالباًْ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ احتساب سب کا قومی نعرہ ہے لیکن اس کے لئے ماحول قانون سازی اور سازگار حالات فراہم کیوں نہیں کیا جاتا کہ اٹھارہ لاکھ کیسوں میں کمی لائی جاسکے ۔میثاق جمہوریت ایک اچھا آغاز تھا لیکن بات اب ملک میں بڑے میثاق کی متمنی ہے ۔ایک ایسا چارٹر جو آئین اور ملک میں قانون کی حکمرانی کی حفاظت کرے اور پاکستان میں نظام کی سمت کا تعین کرے اور ووٹ کا احترام ہو، اور جب سمت طے کرلے تو اس پر عمل کرے اور اسں پر عمل کروائے۔ جہاں مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ آئینی فریم ورک کے تابع ہوں اور رہیں اور کوئی ماورائے آئین قانون اور عدالت اقدامات کرنے کی جرات کو شش اور ایسا اقدام کرکے کسی بھی قسم کے خوف اور قانون کے بندش سے آزاد نہ ہو۔
بحرالحال بحث سمیٹتے ہوئے یہ طے ہے کہ سول اور کرمنل نظام انصاف میں بہت ساری اصلاحات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ تجاویز لا اینڈ جسٹس کمیشن بھی دے سکتا ہے اور پارلیمان اپنی دانش کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے مروجہ نظاموں کو دیکھتے ہوئے عصر حاضر کے تقا ضوں کے مطابق ایسی آئینی اصلاحات قانون سازی اور پالیسی ساز فیصلے کر سکتے ہیں جس سی نظام انصاف ، صاحب انصاف اور اسکی فراہمی کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں وقوع پذ یر ہوسکیں۔ یہ بات طے ہے کہ پانچ لاکھ کی مالیت اور چھ ماہ کی سزا تک کے چھوٹے کیسز ایک سے تین پیشیوں میں پائیہ تکمیل ہونے چاہیں۔ لوگ انصاف کی راہ تکتے تکتے نسلیں گنوا بیٹھے ہیں ۔احتساب سب کا ایک قومی مطالبہ بنتا جا رہا ہے اور جوں جوں قومی اکابرین کٹہرے میں ہوں گے وہ ایک دوسرے کے احتساب کا بروقت کھرا اور کڑے احتساب کا مطالبہ کریں گے۔ اس وقت سے پہلے اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ عدم انصاف کا احتمال نہ رہے۔ پارلیمان کو ان قومی آئینی اور قانونی اصلاحات کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے ، چیف جسٹس لا کمیشن کے ذریعے تجاویز اور حل پیش کریں ۔ عوامی نمئیندگان ، وکلا تنظیمیں بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشن ، سول سوسائیٹی، ہیومن رائیٹس کمیشن ، میڈیا اور قانون دان آئین ساز اور ماہرین کو اس سلسلے میں تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر نظام میں وہ تبدیلیاں تجویز کرنا ہوں گی جس سے ان لاکھوں کیسوں کو سالوں کی بجائے مہینوں میں نپٹایا جا سکے۔ لوگ انصاف کے حصول کے لیے در در ٹھوکریں نہ کھائیں اور سستا فوری اور مکمل انصاف انکے گھر کی دہلیز تک پہنچایا جاسکے۔ اصلاحات کے لئے کسی بھی نظام کو دیکھا جا سکتا ہے ۔چاہے امریکن نظام یا وولف اصلاحات، ہر مبنی برطانوی طرز انصاف ہو یا ہندوستانی لوک عدالتوں کا ماڈل اور یا ہمارا تاریخی ثقافتی اور حقیقت پسندانہ پنچایتی ماڈل ، بات انصاف کی فراہمی کی ہے۔ باتوں سے اٹھارہ لاکھ کیسز میں کمی ناممکنات میں سے ہے اور اسں کے لئے سیاسی فیصلہ سازی ، ٹیم ورک ، عدالتی صاحبان اور انکی سروس استعمال کرنے والے 200 ملین عوام کی رائے اور اسکا احترام اور کام کام اور بس کام کی لگن درکار ہے ۔

(بلاگر بیرسٹر امجد ملک برطانوی اے پی ایل وکلاْ ایسوسی ایشن اور او پی ایف بورڈ آف گورنرز کے چئیرمین ہیں اور انسانی حقوق کے بہترین وکیل کا ایوارڈ رکھتے ہیں ۔ ہیومن رائیٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں)

 نوٹ:  روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -