وزیر اعظم عمران خان نے دہشت گردی کی جنگ کا بیانیہ بدل دیا یا حقیقت بیان کردی؟

Sep 07, 2018 | 09:51 PM

شاہد نذیر چودھری


وزیر اعظم عمران خان نے ہوا میں نہیں ، ٹارگٹ پر تاک کر تیر چلایا ہے کہ پاکستان نے حقیقت میں امریکہ اور پوری دنیا کی وار آف ٹیرر پاکستان میں لڑی ہے،اس بیانیہ کے عالمی سطح پر کیا نتائج جنم لیں گے اور دنیا امریکہ کی جانب اب کن مشکوک نظروں سے دیکھے گی،اسکے مناظر بہت جلد دکھائیں گے ۔
یوم دفاع کے موقع پر شہدا کے اہل خانہ اور غازیوں کے سامنے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی فی البدیہہ تقریر نے پورے ملک میں بحث چھیڑ دی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے شہدا و غازیوں کے جذبات کو مدنظر رکھے بغیر یہ کہہ دیا کہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی ۔ان کے اس بیانیہ سے غازیوں اور شہدا کے ورثا کو تکلیف پہنچی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم فوج کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں دہشت گردی کی جنگ سے نکالا اور ملک کو بچایا ہے ۔دفاعی مبصرین ا ور دانشور حلقوں نے اس موضوع پر شد و مد سے بحث شروع کردی ہے کہ افواج پاکستان کی قیادت اور پارلیمانی اراکین و سفیروں کی موجودگی میں کیا وزیر اعظم عمران خان کو یہ کہنا چاہئے تھا جس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ”وہ جنگ جس میں بقول جنرل باجوہ پاکستان نے ستر ہزار جانوں کی قربانیاں دیں وہ جنگ ہماری نہیں تھی “ .... اگر یہ جنگ ہماری نہیں تھی تو کس کی تھی؟ امریکہ کی ؟ دہشت گردی کے ایک پیج پر اکٹھی ہونے والی دنیا کی طاقتور ریاستوں کی جنگ تھی ؟ سوچنا چاہئے کہ جس جنگ میں نیٹو کی افواج بھی افغانستان میں موجود تھیں اور بارڈر سے اُس پار بیٹھے ہونے کے باوجود ہر طرح کی جدید کمونیکیشن وار ٹیکنالوجی اور انٹیلجنس شئیرنگ کے مستند رابطوں کے ہوتے ہوئے بھی افغانستان سے حملہ آور قوتوں نے سوات و کالام سے وزیر ستان وانا تک پاکستان پر قبضہ کرلیا تھا ۔یہ جنگ اگرچہ ہماری نہیں تھی لیکن لڑی جب ہماری سرزمین پر جانے لگی تھی تو پاکستان آنکھیں موند لیتا؟ یہ جنگ ہماری نہیں تھی تو پھر کولیشن فنڈز کیوں لئے گئے ؟ خیر اس ضمن میں جو سوالات اور نزاکتیں اٹھ سکتی ہیں ان کے جوابات وزیر اعظم عمران خان کو پہلے سے مل چکے ہوں گے کیونکہ وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے منتخب پارلیمانی لیڈروں کو جی ایچ کیو میں لابیٹھایا اور فوج کی موجودگی میں پوری قوم اور عالمی میڈیا کے سامنے پاکستانی فوج کی بطور ادارہ تعریف بھی کی اور سول ملٹری ریلیشنز میں اختلافات کو دفن کرنے کا پیغام بھی دے دیا ۔
جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کے اس موقف کا تعلق ہے کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی تو غالباً وہ فی البدیہہ تقریر کرتے ہوئے اس نقطہ کا دوسرا پہلو بیان کرنا بھول گئے ہوں گے کہ ہاں یہ جنگ ہماری نہیں تھی مگر جب ہماری سرحدوں کے اندر لڑائی آگئی تو ہم نے اسکو اپنی جنگ بنالیا اور یہ ضروری تھا ۔وزارت عظمیٰ سے پہلے عمران خان نے اس جنگ کے خلاف بہت احتجاج کیا تھا،دھرنے بھی دئےے، نیٹو سپلائی کو غیر قانونی کہا اور اسکو رکوانے میں کردار ادا کیا ۔اس جنگ سے پورے ملک میں دہشت گردی کی جنگ پھیلی،خاص طور پر کے پی کے اور بلوچستان میں علیحدگی کا جو بیج بویا گیا ،عمران خان کی آنکھیں ان مذموم واقعات کے بعد کھل گئیں ۔جب وہ یہ کہتے تھے کہ یہ جنگ ہماری نہیں تھی تو وہ افغان وار سے نائن الیون تک کی المناک تاریخ اور اس دوران جنم لینے والی امریکی سازشوں کو مدنطر رکھ کر یہ موقف اپنارہے تھے کہ امریکہ نے اپنے مقاصد کے لئے پاکستان کو استعمال کیا ،کیونکہ اسے پاکستان میں کٹھ پتلی حکمران دستیاب تھے جنہوں نے وطن کے امن کا سودا کیا اور پاکستان کو تاریکیوں میں دھکیلنے کی کوشش کی ۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ موقف جائز اور حقیقت بر مبنی ہے کہ یہ پرائی جنگ تھی جسے اس وقت اپنی جنگ کہنا شروع کرکے قومی ایجنڈا تشکیل دے دیا گیا تھا کہ ملک جن نازک حالات میں پہنچ گیا ہے ،اب اسے عفریت سے نکالنے کے لئے اس جنگ کو اپنی جنگ کہنا ہوگا کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا تھا کہ فوج دہشت گردوں کے تعاقب میں لگی ہو اور سیاستدان و دانشور یہ کہتے پھرتے ہوں کہ یہ جنگ تو ہماری نہیں ،اور اس مذموم موقف سے فوج کی پیٹھ خالی کرکے دشمن کو کامیاب ہونے کا موقع دیا جاتا ۔
قیادت بدلنے سے ریاستوں کی ضروریات اور پالیساں بھی تبدیل ہوتی ہیں۔پاکستان نے امریکہ سے ہی یہ سبق سیکھا ہے کہ مطلب نکل گیا تو آنکھیں پھیر لو۔ اس میں کیا حرج ہے کہ وزیر اعظم عمران خان امریکہ سے دوطرفہ برابری کے تعلقات آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں ا ور فوج کے ساتھ مل کر قومی پالیسی پر ڈٹ جانا چاہتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ فوج کی بریفنگ اور قومی سلامتی کی ترجیحات کو سمجھنے کے بعد وہ کوئی ایسا قدم اٹھانے کی کوشش نہیں کریں گے جس سے اداروں میں تصادم پیدا ہواور امریکہ کو پھر سے پاکستان کو آگے لگانے کا موقع ملے۔اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان کو چین اور روس سے تعلقات میں بہت آگے نکل جانا چاہئے اور خاص طور پر روس کے ساتھ کسی صورت روائتی جفاکاری نہ کی جائے ۔روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات مضبوط ہوتے دیکھ کر امریکہ پاکستان کو کبھی ڈومور کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگا ۔

۔۔

 نوٹ:  روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں,ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں