"سر، آپ کی کوئی بیٹی ھے؟" ایک سوال جو بھری عدالت میں ایک سینئر جج سے کیا گیا تو کمرہِ عدالت میں ۔۔۔"ریسکیو پنجاب کے سابق ہیڈ آف ایڈمنسٹریشن و آپریشنز کا ایسا انکشاف کہ ہرکوئی دنگ رہ جائے

"سر، آپ کی کوئی بیٹی ھے؟" ایک سوال جو بھری عدالت میں ایک سینئر جج سے کیا گیا تو ...

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

راولپنڈی (ڈیلی پاکستان آن لائن )سرکاری ایمرجنسی ایمبولینس سروس ریسکیو 1122 اس وقت کامیابی کے ساتھ لوگوں کی قیمتی جانیں بچانے میں مصروف عمل ہے اور اس کے باعث روزانہ کی بنیاد پر ان گنت افراد کی زندگیاں بچائی جارہی ہیں جس کی کارکردگی کی اس وقت پوری دنیا ہی معترف ہے ۔
اس سروس کی کامیابی کے بعد جب دیگر بڑے شہروں میں ریسکیو کو قائم کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز ہوا تو روالپنڈی کا مرکزی سٹیشن پر سٹے آرڈر کے باعث کام رک گیا لیکن پھر ریسکیو ادارے کی جانب سے ” نعیم ضرار “ عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے ایسے دلائل دیئے کہ عدالت نے اسی دن فیصلہ جاری کرتے ہوئے کام تیزی کے ساتھ مکمل کرنے کا حکم دیا ۔
ریسکیو جب راولپنڈی میں قائم ہونا شروع ہو ئی تو اس وقت نعیم ضرار بھی ٹیم میں شامل تھے جنہوں نے اس تمام صورتحال کی تفصیل پہلی مرتبہ ٹویٹر پر جاری کرتے ہوئے سب کو حیران کر دیاہے اور صارفین ان کی کاوش کو سراہ رہے ہیں ۔
نعیم ضرار نے ٹویٹر پر پیغامات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ میں راولپنڈی کے مرکزی سٹیشن پر احکم امتناع کی کارروائی کے دوران عدالت میں پیش ہوا۔ جس دوران میں نے معزز جج سے پوچھا کہ "سر، آپ کی کوئی بیٹی ہے؟"یہ وہ سوال ہے جو میں نے بھری عدالت میں ایک سینئر جج سے کیا، تو کمرہِ عدالت میں قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی۔ سب کی نظریں جج صاحب کے بھاری بھرکم سرخ ہوتے چہرے پر ٹک گئیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاہور میں کامیاب تجربے کے بعد ریسکیو1122 سروس کو پنجاب کے۔۔

دیگر بڑے شہروں میں قائم کرنے کی کوششیں جاری تھیں۔ راولپنڈی شہر میں کئی ایک اہم مقامات پر ریسکیو اسٹیشن کی عمارتوں کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری تھا۔ لیکن بدقسمتی سے مرکزی اسٹیشن پر کام، آغاز کے وقت سے ہی رک گیا۔ کسی نے جگہ کو متنازعہ بنا کر عدالت سے حکم امتناع لے لیا۔

 
مقامی ریسکیو عملہ اور سرکاری وکیل گزشتہ ایک سال سے عدالت کی تاریخیں بھگت رہے تھے۔ اِس مرکزی سٹیشن کے بغیر راولپنڈی میں سروس کا اجرا ناممکن ہو کر رہ گیا تھا۔ جج صاحب اور حکامِ بالا کے یہ ریمارکس بھی سننے کو ملے کہ مزید تاخیر سے بچنے کیلئے ریسکیو اسٹیشن کیلئے جگہ بدل لی جائے۔۔۔۔

جبکہ میرا اصرار یہ تھا کہ مری روڈ پر چاندنی چوک کے علاوہ مرکزی اسٹیشن کیلئے کوئی دوسری جگہ موزوں نہیں ہو سکتی۔ میں اس وقت ریسکیو پنجاب کا ہیڈ آف ایڈمنسٹریشن و آپریشنز تھا۔ اگلی تاریخ پر حکومت کی جانب سے مجھے خود عدالت میں پیش ہو کر کیس کا جائزہ لینے کی ہدایت ملی تو پیشی سے۔۔۔۔

چند روز قبل ہی میں راولپنڈی پہنچ گیا، کیس کے کاغذات کا مطالعہ کیا۔ ضروری ڈیٹا اکٹھا کیا۔ اور وقت مقررہ پر سرکاری وکیل اور جونئر افسران کے ہمراہ کمرہِ عدالت پہنچ گیا۔ وکیل نے مجھے بار بار باور کرایا کہ جج صاحب عدالتِ عظمیٰ کے کسی جج کے قریبی عزیز ہیں اور نہایت غصہ ور واقع ہوئے ہیں

لہٰذا میں ازخود کچھ کہنے کی گستاخی سے باز رہوں۔ پیشی کے آغاز ہی میں جج صاحب نے مدعی سے ا±س کے وکیل کے بارے دریافت کِیا۔ مدعی جو وضع و قطع سے ہی پیشہ ور مقدمہ باز نظر آیا، نے عامیانہ عذر پیش کر دیا کہ ا±س کا وکیل آج کسی مقدمہ کی بابت ہائی کورٹ میں مصروف ھے۔ یہ سن کر جج صاحب نے۔۔۔۔

ہمارے وکیل پر نگاہ ڈالی اور کہا کہ پھر اگلی تاریخ لے لیں۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے کچھ عرض کرنے کی مودبانہ گزارش کر ڈالی۔ میرے وکیل نے مجھے ایک دو بار کہنی ماری مگر جج صاحب میری جانب متوجہ ہو کر بولے، "آپ ریسکیو والے ہیں؟"۔ میں نے اپنا مختصر سا تعارف پیش کِیا۔ جسے سن کر۔۔۔۔

جج صاحب نے اپنی کرسی سے ٹیک لگا کر کہا، "آپ لاہور سے تشریف لائے ہیں، کہیں کیا کہنا چاہتے ہی۔" اجازت ملتے ہی میں تقریباً ساڑھے تین منٹ مسلسل بولا۔ میرے چپ ہونے کے بعد جج صاحب نے اسی دن اس کیس کا نہ صرف فیصلہ سنا دیا بلکہ تعمیری مراحل کی رفتار سے عدالت کو۔۔۔۔۔۔۔

مطلع رکھنے کا بھی حکم دے دیا۔ میں نے ساڑھے تین منٹ میں جو کچھ کہا اس نے کیس اور جج صاحب کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ تمہید کے طور پر مختصراً ریسکیو سروس کی افادیت، اب تک راولپنڈی شہر میں ہونے والے حادثات اور بروقت پیشہ وارانہ طبی امداد کی عدم دستیابی سے شرحِ اموات اور نقصانات اور۔۔۔۔

مذکورہ جگہ پر مرکزی اسٹیشن کی اہمیت بتا کر مَیں نے کہا، "سر، کچھ برس پہلے اِسی متنازعہ جگہ سے ایک کلومیٹر دور ایک صبح ایک کار کے حادثے میں میڈیکل کالج کی ایک نوجوان طالبہ ہلاک ہو گئی جبکہ اس کے ساتھ موجود کلاس فیلو دوست ہمیشہ کیلئے اپاہج ہو گئی۔ موت کی وجہ تاخیر سے طبی امداد۔۔۔


پہنچنا، خون ضائع ہو جانا اور غیر پیشہ ورانہ طریقے سے ہسپتال میں منتقل کرنا ٹھہری۔ سوچیئے کہ اس دن اِسی اسٹریٹجک لوکیشن پر اگر ریسکیو سٹیشن ہوتا تو عین ممکن ہے وہ طالبہ آج زندہ ہوتی اور دوسری اپاہج نہ ہوتی۔ سر، جانتے ہیں کہ ہلاک ہونے والی وہ طالبہ کون تھی؟۔۔۔۔۔۔

وہ ایک سینئر جج صاحب (نام نہیں لکھ سکتا) کی اکلوتی اولاد تھی" یہاں تک کہتے کہتے میری آواز فرطِ جذبات میں بلند ہو چکی تھی۔ میں نے سانس لینے کیلئے ایک وقفہ لِیا اور پھر پوچھا کہ "سر، آپ کی کوئی بیٹی ہے؟" یہ وہ سوال ہے جو میں نے بھری عدالت میں ایک سینئر جج سے کیا، تو کمرہِ عدالت

میں قبرستان جیسی خاموشی چھا گئی۔ سب کی نظریں جج صاحب کے بھاری بھرکم سرخ ہوتے چہرے پر ٹک گئیں۔ میں نے جج صاحب کی پیشانی پر نمودار ہونے والے پسینے کے قطرے دیکھے۔ جج صاحب کچھ دیر خاموش میری جانب دیکھتے رہے۔ پھر دائیں جانب دیوار پہ لگے وال کلاک کو دیکھا۔ غالباً دن کے ساڑھے گیارہ کا

وقت تھا۔ پھر وہ مدعی سے یوں گویا ہوئے، "اپنے وکیل صاحب کو بلا لیں۔ آج تین بجے تک کا وقت ھے۔ آج اِس کیس کا حکم جاری ہو گا۔

الحمدللہ۔۔۔ راولپنڈی کا وہ مرکزی اسٹیشن آج بھی سی جگہ قائم ھے اور جان بچانے کا فرض ادا کر رہا ھے۔

مزید :

قومی -