مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد
قسط:15
اس طرح رسول اکرم ﷺ کے نعلین مبارک، شمشیر جو کئی غزوات اور سریہ جات میں استعمال ہوئی۔ آپؐ کی اونٹنی کی لگامیں اور نشست گاہ کا سامان دیکھا اور سینکڑوں نایاب تبرکات دیکھ دیکھ کر ہم اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہے۔ یہاں دیگر صحابہ کبار ؓ کی یادگار اشیاء اور اُن سے منسوب سامان دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ یہاں ہی بیٹھے رہیں۔ مگر وہاں رہا بھی نہیں جا سکتا تھا اور بالآخر ہمیں وطن عزیز تو آنا ہی تھا۔
انقرہ، ترکی کا صدر مقام ایک بہت بڑا شہر ہے۔ انقرہ میں بھی کئی عجائب گھر ہیں۔ اور ترکی میں تو سینکڑوں عجائب خانے اور عجائب گھر ہیں۔ ہمیں وہاں بتایا گیا کہ اگر ہم ٹھہرنا چاہیں تو ہمیں بہ آسانی ویزے میں توسیع مل سکتی ہے مگر ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ ہم نے چند روز میں ترکی کو جو بھی دیکھا وہ ہمیں اب تک اس طرح یاد ہے گویا آج ہی دیکھا تھا۔ اور شاید وہ سب کچھ ہمیں ہمیشہ یاد رہے گا۔ اہل ترکی کی محبت اور ترکی کے حسن نے ہمیں اپنا اسیر بنا لیا۔
جمہوریہ ترکی
ترکی اس وقت عالم اسلام کا ایک بہت ہی اہم ملک ہے جو کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان واقع ہے۔ ترکی کے شمال میں جارجیا اور آرمینیا۔ جنوب میں عراق و شام۔ مشرق میں ایران اور مغرب میں یونان و بلغاریہ کے ممالک شامل ہیں۔ 78 لاکھ تراسی ہزار پانچ سو باسٹھ کلومیٹر (7883562) رقبہ پر پھیلے ہوئے اس مسلم ملک کی آبادی 2009ء کے اعداد و شمار کے مطابق ساڑھے سات کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ملک کی قومی زبان ترکش جبکہ اس کرنسی ترکش لیرا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک ڈرامہ ”میرا سلطان“ چل رہا ہے جو کہ درحقیقت ترکی کا ہی ایک تاریخی ڈرامہ ہے اور پاکستان میں دونوں ممالک کی دوستی اور تعلقات کو مزید دوستانہ بنانے کے لئے ترکی سے مستعار لیا گیا ہے اور اسے اردو زبان میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ترکی بہت قدیم تاریخ کا حامل ملک ہے۔ چھٹی صدی عیسوی میں منگول ترکوں کے ترک یہاں آباد ہوئے تقریباً آٹھویں صدی میں یہاں اسلام کا غلبہ شروع ہوا۔ بغداد کی عباسی خلافت کے زوال کے بعد حکومت پر ترک سلجوک قابض ہو گئے جبکہ بعد ازاں عثمانی ترک ایشیائے کوچک کو چھوڑ کر یہاں آباد ہو گئے۔ 1299ء میں عثمان اول نے عثمانی سلطنت کی بنیاد رکھی پھر ترکی کا دائرہ اثر وسیع ہوتا گیا اور صدی کے اختتام تک مصر، عرب، شام، عراق، ہنگری اور طرابلس تک یہ سلطنت وسیع ہو گئی۔ ترکوں نے 1669ء میں جزیرہ کریٹ پر بھی اپنا پرچم لہرا دیا۔ سترھویں صدی میں سلطنت عثمانیہ کا زوال شروع ہوا اور 1912ء تک ہنگری، کریمیا، یونان، بلقان، بلغاریہ، بوسنیا اور البانیہ وغیرہ ترکی کی حکومت سے آزاد ہو گئے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ 1920ء میں نوجوان ترکوں نے اپنے حکمران خلیفہ عبدالحمید کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا اور انقرہ کو حکومتی مرکز بنا لیا اور پھر اتاترک مصطفی کمال پاشا کی زیر قیادت ترک فوج یونانی فوج کو ترکی سے نکالنے میں کامیاب ہو گئی اور 29 اکتوبر 1923ء کو ترکی ایک آزاد جمہوری ملک بن گیا۔ ترکی کے آئین کے مطابق ترکی ایک سیکولر ملک ہے۔ ملوکیت اور خلافت کا اثر زائل کر دیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ترکی نے کسی بھی فریق کا ساتھ نہیں دیا اور غیرجانب داری کا مظاہرہ کیا۔ 1952ء میں ترکی نیٹو کا رُکن بن گیا۔ 1957ء میں ڈیموکریٹک پارٹی عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور عدنان مندریس وزیراعظم منتخب ہوئے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔