متحد ہونے ہی میں سلامتی ہے
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بلوچستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹا جائے گا،یہ معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں،اِن میں ہمت ہے تو فوج سے مقابلہ کریں۔ پاک فوج کے ترجمان نے کہا کہ ملک میں کوئی نو گو ایریا نہیں، بلوچستان میں بیرونی فنڈنگ سے احساس محرومی کا بیانیہ بنایا جاتا ہے جبکہ اِسے دیگر صوبوں کی نسبت ہر لحاظ سے اہمیت دی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف کئے جانے والے اقدامات، داخلی سلامتی اور دیگر اَمور پر بریفنگ دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ رواں سال دہشت گردوں کے خلاف 32 ہزار173 مختلف نوعیت کے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے گئے، گزشتہ ایک ماہ کے دوران چار ہزار کے قریب آپریشن کیے گئے جن میں 90 فتنہ الخوارج کو جہنم واصل کیا گیا جبکہ اِن آپریشنوں میں افواجِ پاکستان کے 193 بہادر افسروں اورجوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ فوج کا کام دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں کو کلیئر اور عارضی طور پر ہولڈ کرنا ہے تاکہ اِن علاقوں کی تعمیر کے لئے سازگار ماحول مہیا کیا جاسکے،اِس فیز کومکمل کرنے میں بنیادی کردار صوبائی اور مقامی حکومتوں کا ہے جنہوں نے وہاں معاشی اور سماجی منصوبے شروع کرنے ہیں۔ تمام صوبائی اور مقامی انتظامیہ دہشت گردی سے پاک کئے جانے والے علاقوں کا کنٹرول سنبھالے، سیاسی اور دوسرے سٹیک ہولڈرز کو بھی آگے بڑھنا ہو گا، پاک فوج ہمیشہ کی طرح اُن کی بھرپور اعانت کرے گی اور ساتھ دے گی۔ اِس کے ساتھ ساتھ ڈی جی آئی ایس پی آر نے فوج کے خود احتسابی نظام پر بھی بات کی،اُنہوں نے کہا کہ فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، وہ کسی سیاسی جماعت کی مخالف ہے نہ اُس کی طرفدار، سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھانے والا فوج میں جوابدہ ہے۔پاک فوج خود احتسابی کے نظام پر یقین رکھتی ہے جو کہ انتہائی شفاف اور مضبوط ہے، جس جس نے غلط کیا اُن سب کا احتساب ہو گا، فوج میں کوئی بھی شخص اپنے ذاتی مفاد کے لیے کام کرے یا مخصوص سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھائے تو فوج کا خود احتسابی کا نظام حرکت میں آتا ہے،پاک فوج میں کوئی بھی فرد واحد چاہے وہ کوئی بھی مقام رکھتا ہو،اُس کی کوئی بھی حیثیت ہو، اگر وہ کوئی کام فوج کے دائرہ کار اور ضوابط کے خلاف کرتا ہے تو خود احتسابی کا عمل اُسے قانونی دائرہ کار میں لے کر آتا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کا کیس اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ فوج ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے کی گئی خلاف ورزیوں کو کس قدر سنجیدہ لیتی ہے اور قانون کے مطابق بلا تفریق کارروائی کرتی ہے۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی فیض حمید کے خلاف آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے واضح ثبوت اور شواہد سامنے آئے جس پر اُن کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ٹاپ سٹی کیس میں ریٹائرڈ افسر کے خلاف باضابطہ طور پر درخواست موصول ہوئی، پاکستان آرمی نے تحقیقات کے بعد آگاہ کیا کہ متعلقہ ریٹائرڈ افسر نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی کی ہے، فوج دیگر اداروں سے بھی توقع کرتی ہے کہ ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے کوئی بھی اپنے منصب کا استعمال کرے تو اُسے جوابدہ بنایا جائے، ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد ہی اْن کا بہترین سرمایہ ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل بلوچستان میں 24گھنٹوں کے دوران دہشت گردی کے پے در پے کئی واقعات رونما ہوئے،مختلف کارروائیوں میں سکیورٹی فورسز کے 14 اہلکاروں سمیت 54 افراد شہید ہو گئے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جوابی کارروائی میں 21 دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ موسیٰ خیل میں پیش آیا تھا جس میں مسلح افراد نے 23 مسافروں کو بسوں سے باہر نکال کر شہید کر دیا تھا، اُنہوں نے باقاعدہ شناختی کارڈ دیکھ کر یہ کارروائی کی تھی۔اِس واقعے سے پنجابیوں کو بلوچستان میں قتل کرنے کی بحث شروع ہو گئی جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواز سرفراز بگتی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ شہید کیے جانے والے پنجابی نہیں بلکہ پاکستانی تھے، کارروائیاں کرنے والے ناراض بلوچ نہیں بلکہ دہشت گرد ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ دہشت گردی ایک ناسور ہے جس کو جڑ سے اکھاڑے بغیر معاملات بہتر نہیں کیے جا سکتے، رواں سال ہونے والے ہزاروں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن اِس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ جنگ جاری ہے،اِن آپریشنوں کے ہی ذریعے دہشت گردی کی کئی وارداتوں کو روکا گیا ورنہ اور نجانے کتنا نقصان ہوتا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ پاک فوج اپنا کام کر رہی ہے تاہم منتخب حکومتوں کو اپنی ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا ہیں جس کا فائدہ بہر طور ملک دشمن عناصر اُٹھا رہے ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے، وہاں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں، صوبے کے پاس اربوں روپے کا سالانہ بجٹ ہے، ہزاروں میل لمبی سڑکیں موجود ہیں، ہسپتال ہیں، تعلیمی ادارے ہیں، بچے سکالر شپ پر نہ صرف پاکستان کے کالجوں اور یونیورسٹیوں بلکہ بیرون ملک بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لیکن پاکستان دشمن قوتیں ایسے بیانیے بناتی ہیں جس کا مقصد بلوچستان کی ترقی کو روکنا ہے اور احساس محرومی برقرار رکھنا ہے۔یہ ممکن ہے کہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی نسبت مسائل زیادہ ہوں، وہاں بیرونی طاقتیں بھی کام کر رہی ہیں، علیحدگی پسند اپنے ہی مفاد کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں، قبائلی نظام صوبے کو جکڑے ہوئے ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان میں اِس وقت بھی منتخب حکومت ہے، اُس کے وزیراعلیٰ کا تعلق کسی دوسرے صوبے سے نہیں بلکہ بلوچستان ہی سے ہے، منتخب صوبائی اسمبلی ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی موجود ہے، کئی وزرائے اعظم کا تعلق بلوچستان سے رہا ہے، موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان کا تعلق بھی اِسی صوبے سے ہے، اس لئے بالکل ہی محروم ہونے کا نعرہ بلند کرنا مناسب نہیں ہے۔ کوتاہی اور بدانتظامی ہو سکتی ہے لیکن یہ سارے معاملات اہل ِ سیاست کو عقل اور فہم کے ساتھ حل کرنے چاہئیں، شکوے اور شکایات کو مل بیٹھ کر دور کریں، بلوچستان کے معاملات پر توجہ دیں اور آگے بڑھنے کا راستہ دکھائیں۔ملک میں پہلے ہی بہت سے مسائل ہیں، معاشی حالات گھمبیر ہیں، سیاسی عدم استحکام ہے، دہشت گردی سر اُٹھا رہی ہے، لوگوں کی زندگی اجیرن ہے ایسے میں کسی قسم کے صوبائی تعصب کو ہوا دینے کا نقصان صرف اور صرف ملک کو ہو گا۔بہتر یہی ہے کہ ایسے تمام عناصر کی سرکوبی کی جائے،اتحاد اور قومی یگانگت کا سبق پڑھا اور پڑھایا جائے۔