ووٹ کے ساتھ’ تھانیدار‘ انتخابی عملے کو عام معافی دینے کی تیاری بھی کریں
گلوبل پنڈ ( محمد نواز طاہر) تھانے کی پوری عمارت میں جوئے خانے اور ارد گرد سے شبے میں پکڑے جانے والوں کی ہاہا کار سے گونج رہی تھی ۔ حوالات میں ایس ایچ او کے گھر جیسی سہولت لینے والے ایک ملزم نے تھانیدار کو طلب کیا اور رہنمائی کی کہ بھائی میاں جو راہگیر ہیں ان پر کیوں برس رہے ہو جبکہ معلوم بھی ہے کہ یہ جواری تھے نہ ہی جرم کے ارادے سے وہا ں سے گزر رہے تھے تو تھانیدار نے جواب دیا کہ انہیںبھی عبرت ہوجائے گی کہ یہاں سے نہیں گزرنا یہ راستہ برائی اور رسوائی کی طرف جاتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی اس نے تفتیش جاری رکھی اور پوچھنا شروع کردیا کہ”اوئے شراب کس کس نے پی تھی اور نماز کس کس نے قضاءکی ، بیوی سے پوچھ کر کون آیا تھا اور اس سے چوری کون آیا تھا ؟“ اس تفتیش کے دوران ایک شرابی نے تو کلمہ طیبہ پڑھ کر حلف دے دیاکہ بھئی شراب تو پی ہے لیکن میں غیر مسلم ہوں اسلئے امتناعِ شراب کا قانون اور اسلامی حد مجھ پر لاگو نہیں ہوتی ۔جاری تفتیش کے دوران جوئے کے اڈے کا مالک بھی وہاں پہنچ گیا اور اپنی‘ زبان‘ میں بولا کہ صاحب بہادر جس جس پر پرچہ درج کرناہے وہ کریں اور جس جس کو دفع کرنا ہے اسے دفع کریں ، یہ سوال عدالت خود پوچھ لے گی کہ جرم کیوں کیا ؟ تھانیدار نے بھی اب کے بار ’سمجھدارانہ ‘ جواب دیا کہ تھانیداری ایسے نہیں چلتی اور اس زمانے میں بالکل ہی نہیں چلتی ، جمہوری دور ہے ہر کسی کی’ اوپر ‘تک پہنچ ہے ۔ انہوں نے کونسا روز روز ہمارے ‘’ٹیٹے‘(ہتھے) چڑھنا ہے ،سب نے چلے جانا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی وقت ا نہی میں سے کسی کی سفارش کرواکر مجھے اپنی معطلی کے احکامات واپس کرانا پڑیں اسلئے ابھی موقع ہے کہ ان کواپنی تھانیداری بھی بتا دی جائے ، جہاں ممکن ہو مقدمہ بھی درج کرا لیا جائے جہاں کل کلاں معذرت کا وقت آئے تو میں یہ بھی عذر بیان کر سکوں گا کہ بھئی میں نے تو ان کے جرم کی بات ہی نہیں کی تھی بلکہ اصلاح کیلئے شرعی بات کی تھی اور یہ قابلِ دست اندازی جرم نہیں بلکہ قابل ِ معافی خطا ہے لہٰذا جان چھوٹ جائے گی کیونکہ اصل بات جو پوچھنے والی تھی وہ تو ہم نے پوچھی ہی نہیں ۔ویسے بھی ہماری تربیت کا اہم پہلو یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے تھپڑ مارو اور اگلے ہی لمحے حالات بدلنے پر دونوں ہاتھ جوڑ کر مافی مانگ لو۔۔۔ عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کے معاون عدالتی افسروں اور ان کے کمروں کا منظر بھی میڈیا نے تھانے کی عمارت سے کچھ مختلف نہیں دکھایا ۔سابق وزیر خارجہ سے شادی کی ’رسید‘ تک مانگ لی گئی ، اداکارہ مسرت شاہین سے کلمے سنے گئے جبکہ ان کے مدِ مقابل مولانا فضل الرحمان سے کلمہ یا کوئی قرآنی آیات سننے کی اطلاع نہیں ملی نہ دیگر مضحکہ خیز قرارپانے والے سوالوں کی طرح مولانا سے یہ فرمائش کی گئی کہ اپنی مدمقابل اور صفِ اول کی اداکارہ کے مقابلے میں کوئی ٹھمکہ لگائیں یا دو سریلے بول ہی سنا دیں ۔کچھ لوگوں سے قومی ترانہ بھی سنا گیا لیکن اس امر کو نظر انداز کردیا گیا کہ قومی ترانہ جہاں بھی پڑھا جائے گا اس کے احترام میں باادب اور پورے احترام سے کھڑا ہونا بھی لازم ہے ۔ سینما گھر کی صنعت کو نامناسب قراردینے والے بھی مانتے ہیں کہ فلم کتنی ہی اچھی یا بری کیوں نہ ہو اس کے آغاز میں قومی ترانہ ہوتا ہے اورسینما میں موجود تمام لوگ باقاعدہ اس کے احترام کھڑے بھی ہوتے ہیں لیکن قومی ترانہ سنانے کی فرمائش کرنے والے الیکشن کمیشن کے مددگار کسی جوڈیشل آفیسر نے اس کے احترام میں کھڑا ہونا گوارا نہیں کیا بلکہ جو نہ سنا سکا اسے نااہل قراردیدیا ، عجب تماشہ ہے کہ جو بھول گیا وہ تو نا اہل ہے اور جو اپنے قومی ترانے کا ادب و احترام کرنا نہیں جانتا وہ قوم و ملک اور انسان کی زندگی و موت کے فیصلے کرنے کا بھی پوری طرح اہل ہے ۔ سبحان اللہ ۔۔ ۔سبحان اللہ ۔ ۔ ۔ اصل بات یا اصل اور عوام مفاد کا صرف ایک سوال تھا جو تمام بڑی جماعتوں کے رہنماﺅں سے پوچھا جانا چاہئے تھا کہ قائدِ محترم! آپ کونسی نشست جیتنے کے بعد خالی کریں گے اور کس نشست کو دل سے لگا کر اس حلقے کے عوام کی نمائندگی کا ’ احسان ‘ کریں گے ، اور پھر یہ کہ آئین کے تحت جب صرف ایک ہی نشست ہی رکھنی ہے تو ایک سے زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے سے ذاتی اور قومی خزانے پر بوجھ کیوں ڈالنا چاہتے ہیں ؟ اس قومی نقصان پر کیوں نہ آ پ کے کاغذات مسترد کئے جائیں؟ لیکن یہ کون پوچھے ؟عمران خان ، نواز شریف مولانا فضل الرحمان راجہ پرویز اشرف وغیرہ کس ریٹرننگ آفیسر کے سامنے پیش ہوئے ؟ کس نے انہیں ذاتی طور پر طلب کیا ؟بس بیچارے گامے ، ماجھے اور کچھ زیرِ نظر ہی زیر عتاب لائے گئے ۔ بات یہیں نہیں رکتی ۔۔۔ کسی محکمے کی غلطی سے بھی اگر کسی کے کاغزات میں کمی بیشی دور نہیں ہوسکی تو وہ نااہل قرار پاگیا جبکہ الیکشن کمیشن کا اپنا یہ حال ہے کہ اس کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں کے اصل اعدادوشمار ہیں موجود نہیں ۔ یہ اعدادو شمار ہر روز تبدیل ہوئے ۔ اگر مان لیا جائے کہ الیکشن کمشنرز سابق جج صاحبان ہیں اور جج کو کبھی اس غلطی کی سزا بھی نہیں ملتی جو وہ کسی ’وجہ‘ سے بھی کرے اور بے گناہ پھانسی چڑھ جائے مگر الیکشن کمیشن کا باقی عملہ تو کچی جماعت سے بھاگ کر اس ادارے میں بھرتی نہیں ہوا ؟ جنہوں نے کاغزاتِ نامزگی وصول کئے وہ موٹر مکینک تو نہیں تھے ؟ گنتی تو انہیں یاد رکھنا چاہئے ؟ تنخواہ ، مراعات یا ’کچھ بھی ‘ وصول کرتے ہوئے بچوں سے کہتے ہیں گنتی کر کےے بتانا ناٹ پورے ہیں َ؟جب پہلے مرحلے میں یہ حال ہے تو انتخابی نتائج مرتب کرتے وقت کیا ہوگا ۔ کیا سکول ماسٹروں اور ایوارڈ لسٹ تیار کرنے والوں کی غلطی کی طرح فیل ہونے والے پاس اور پاس ہونے والے کئی روز تک فیل ہوتے رہیں گے ۔ ان غلطیوں کا خمیازہ کون بھگتے گا اور ازالہ کون کرے گا ؟ ۔ لگتا ہے تھانیدار کا کلیہ ہی کام آئے گا کہ ایک ہاتھ سے تھپڑ مارو اور حالات بدلنے پر دونوں ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لو ۔ ۔ ۔ ۔قوم کی وسیع پیمانے پر عام معافی کا اعلان کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا کیونکہ ہم ایک پولیس سٹیٹ میں رہتے ہیں جہاں زور تھانیدار کا ہی چلتا ہے ،تھپڑ مار کربھی اور دونوں ہاتھ جوڑکر بھی ۔۔۔