اسلامی ملکوں سے بھارت کے تعلقات
بھارت بحیثیت سیکولر ملک کے اسلامی ممالک میں پاکستان اسلامی ممالک میں بھارت کے مقابلے میں تیسرے درجے کا ملک بن چکا ہے۔
اس کالم میں میں کچھ خاص نکات پر قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو کہ کافی حد تک تکلیف دہ باتیں ہیں، مگر ہمیں حقائق کا سامنا کرنا ہو گا۔ ابتدا میں نشاندہی کے بعد آخر میں ان مسائل کا حل بھی درج کیا گیا ہے۔ اس لئے اگر کسی کی دل آزاری ہو تو ازراہِ مہربانی آخر میں دی گئی سفارشات سے مستفید ہوں یا پھر اپنے من پسند خارجہ اور داخلہ پالیسی والے ڈنگر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ درج بالا تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھٹو اور ضیاء دور میں اپنے عروج پر تھے۔ تا ہم بھٹو کو پھانسی کے بعد لیبیا، فلسطین، ایران خاص طور پر متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ممالک سے تعلقات متاثر ہوئے۔ تاہم ضیاء حکومت ان کو استوار کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوئی، مگر بھارت نے اس خالی جگہ کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور اُس خلا کو بھارت نے اپنی سمجھداری سے عمدہ طریقے سے پُر کیا اور پاکستان کو بہت کمزور سطح پرلاکھڑا کیا۔
عرب ممالک میں پاکستانی کمیونٹی کشمیر جہاد کے نام پر چندہ جمع کرتی تھی اور کئی سال تک کرتی رہی تا ہم بھارت نے یہ چندہ بند کروا دیا۔ اب ہم فرداً فرد اً اسلامی ممالک سے بھارت کے تعلقات کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔
بھارت ایران تعلقات:
*۔۔۔ دونوں ممالک نے1983 میں مشترکہ دفاعی کمیشن بنایااس کے علاوہ 2003میں ایرانی صدر خاتمی کے دورہ دہلی کے دوران مزید دفاعی معاہدے ہوئے جن کے تحت بھارت کو ایران کی کچھ خاص Basis پر Access دی گئی ہے۔
*۔۔۔دونوں ممالک نے مل کر افغانستان میں مشترکہ حکمت ِ عملی بنائی اور ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیا۔
*۔۔۔ دونوں ممالک کے درمیان کاروباری سفارتی اور دفاعی میدانوں میں بہت سے معاہدے ہوئے، جن کی لاگت اربوں ڈالر ہے۔
*۔۔۔دونوں ممالک خارجہ سطح پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
*۔۔۔ اِن سب کے باوجود بھارت نے 2013ء میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کمشن میں ایران کے خلاف ووٹ کیا۔اس کے علاوہ سہہ ملکی گیس پائپ لائن میں بھی بھارت نے ایران کو انکار کردیا پھر بھی ایران بھارت دوستی سب کے سامنے عیاں ہے۔
بھارت عراق اور شام تعلقات:
بھارت عراق کی مالکی حکومت کیساتھ مضبوط تعلقات استوار کر چکا ہے اور دفاعی سطح پر اُن کی معاونت کرتا ہے۔ سفارتی سطح پر بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
بھارت کے بشارالاسد کے ساتھ اور اُس کے باپ حافظ الاسد کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ شام نے ہر سطح پر بھارت کو پاکستان پر فوقیت دی اس کے علاوہ پاکستان کے خلاف الذالفقار تنظیم بھی کافی عرصہ تک شام سے متحرک رہی اور بھارت اس کی معاونت کرتا تھا۔ آج کے حالات میں بھی بھارت اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے۔
بھارت فلسطین تعلقات:
فلسطین کا سابق سربراہ یاسر عرفات بھارت کو اپنا دوسرا گھر تسلیم کرتا تھا اور پاکستان کو گھاس تک نہیں ڈالتا تھا۔ آج بھی بھارت کے اسرائیل کے ساتھ بے پناہ مضبوط تعلقات ہونے کے باوجود محمود عباس بھارت کیساتھ اپنے آپ کو زیادہ قریب سمجھتا ہے، جبکہ پاکستان آس پاس بھی نظر نہیں آتا۔
بھارت بنگلہ دیش تعلقات:
مشترقی پاکستان اور مسلمان اکثریت میں ہونے کے باوجود1971ء میں بنگلہ دیش ہم سے الگ ہو گیا۔بھارت کے ایک ملباری جنرل نے اہم کردار ادا کیا مکتی باہنی چلائی گئی اسوقت سے آج تک بھارت بنگلہ دیش تعلقات انتہائی مضبوط ہیں، جبکہ1971ء میں پاکستان کے حق میں بولنے والے جماعتِ اسلامی کے رہنما کو بنگلہ دیش میں پھانسی دے دی گئی۔
بھارت افغانستان تعلقات:
’’ظاہر شاہ کے زمانے سے لے کر آج تک بھارت کے افغانستان کیساتھ تعلقات ہمیشہ بہترین سطح پر رہے۔ تا ہم90ء کی دہائی میں طالبان کے قبضے کی صورت میں بھارت کو افغانستان سے دم دبا کر بھاگنا پڑا اور تب بھارت نے امریکہ۔ ایران اور روس کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد کا ساتھ دیا، مگر ہر سطح پر مُنہ کی کھانی پڑی، مگر 11ستمبرکے واقعات کے بعدطالبان حکومت کے خاتمے پر بھارت پھر سے سر گرم ہو گیا اور افغانستان اورایران میں قونصل خانے کھولے۔
بھارت سعودی عرب تعلقات:
پاکستان سعودی عرب تعلقات بہترین ہونے کے باوجود بھارت نے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو کبھی حقیر نہیں جانا، بلکہ اُس میں بہتری کی کوشش کرتا رہا اور کچھ عرصہ سے سعودی عرب کیساتھ بھی بھارت نے ایکسٹراڈیشن معاہدہ کیا اور اپنے چند مطلوب افراد بھی سعودی عرب سے بھارت منگوانے میں کامیاب ہوا۔ اس کے علاوہ تجارت اور دیگر معاملات میں بھارت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ2012 میں پرنس سلمان اوراے کے انتھونی نے دفاعی معاہدے کی بنیاد رکھی اور چند دن قبل یہ معاہدہ طے پا گیا۔ یوں بھارت سعودی عرب جیسے اہم ترین ملک کیساتھ بھی دفاعی معاہدے میں منسلک ہو گیا اوراس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت اپنے اِن تعلقات کو سعودی عرب کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز کر سکتا ہے جو کہ پاکستان کے کشمیر کازکیلئے نقصان دہ ہو گئی ۔
بھارت امریکہ ۔ اسرائیل تعلقات:
بھارت نے1950ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور 1953ء میں پہلا اسرائیلی سفارت خانہ قائم ہوا۔ یوں حکومتی سطح پر بھارت اسرائیل معاشقہ چلا اور آج ایک رشتے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ اگر بھارت اسرائیل کے ساتھ ایک بے حد مضبوط رشتہ رکھتا ہے اور اسرائیل بھارت کو اسلحہ بیچنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو دوسری طرف عرب ممالک جن کا اُوپر ذکر ہو چکا ہے وہ بھارت کے ساتھ کس طرح اور کیوںAttachہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی Indiginousہے نہ کہDictated جبکہ پاکستانیوں کے حالات یہ ہیں کہ اگر سعودی عرب کی طرف جھکاؤ ہو جائے، تو ایران ٹیکے لگانا شروع کر دیتا ہے۔ طالبان کے ساتھ حالات بہتر ہوں تو ایران دھکے دینا شروع کر دیتا ہے۔
اسرائیل بھارت کو بے پناہ امداد اور اسلحہ دے رہا ہے اور ہر سطح پر بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ ڈرون طیاروں سے لے کر کیمیائی ہتھیاروں تک ہر سطح پر اسرائیل بھارت کو اسلحہ بیچے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے باوجود اگر بھارت سعودی عرب کیساتھ دفاعی معاہدہ کر لیتا ہے تویہ بھارت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
بھارت کے ساتھ اسرائیل ہی نہیں بلکہ امریکہ اور روس بھی پیش پیش ہیں اور بھارت کے ساتھ ہر سطح پر الگ نظر آتے ہیں اور اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے کر چکے ہیں اور کئی اسلامی ممالک میں بھارت کے ساتھ مشترکہ اشتراک میں پالیسیاں بنا رہے ہیں جس میں دفاع، توانائی ، تعلیم اور ثقافت شامل ہیں۔
بھارت پاکستان تعلقات:
1948ء میں جنگ۔ 1965ء میں جنگ اور 1971ء میں ملک کو دولخت کرنے کے باوجود بھارت نے پاکستان میں اپنے ہمدرد پیدا کر رکھے ہیں ۔ کشمیر میں بے پناہ طلم کرنے کے باوجود پاکستان میں موجود امن کی آشا چلانے والوں کی کمی نہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھارت میں کم و بیش 10سے زیادہ علیحدگی پرست تحریکیں چل رہی ہیں، اُس کے باوجود بھارت اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی کو ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہونے دیتا اور دنیائے عالم میں اپنی بہترین سفارتکاری کے ذریعے نا صرف اپنے مسائل حل کر رہا ہے، بلکہ مسلم ممالک میں بھی اُس کا اثر و رسوخ کافی اہمیت اختیار کر چُکا ہے۔
خارجہ پاکیسی کے لئے بنیادی نقطہ:
ایسے افراد سفیر لگائے جائیں جن کا Exposure عالمی ہو نہ کہ گلی محلے اور اقربا پروری کا، کیونکہ میرے ذاتی مشاہدے میں یہ باتیں آئی ہیں کہ ہمارے سفیر حضرات بیرونی ممالک میں اپنے ذاتی تعلقات۔ تحفے تحائف اور ذاتی کاروبار کو وسعت دینا۔ اپنے بچوں۔ رشتہ داروں کے لئے روپیہ کے مواقع میسر کرانا بنیادی فرض سمجھتے ہیں، جبکہ ملکی مفاد اور دو طرفہ تعلقات کا سر پیر تک نہیں پتہ ہوتا۔ اس کے علاوہ نہایت ہی نیچ حرکت یہ کہ دوست احباب کے گھروں میں ٹھہرنا اور حکومت پاکستان سے جعلی ہوٹلوں کے بل بنوا کہ روپیہ ہڑپ کرنا ۔ ویزے خریدنے اور بیچنے جیسے کام کرنا۔
یہ تمام کام ایسے ہیں جو کہ روکے نہیں جا سکتے تا ہم ایسے لوگوں کو نظر انداز کر کے اور ایسے افراد سفیر لگاکر جو کہ اپنے متعلقہ ملک کے جغرافیائی ۔ سیاسی اور معاشرتی حالات سے اچھی طرح واقف ہوں اور قابل قدر حضرات ہوں، جن کے نزدیک ملکی مفاد عظیم تر ہو۔نوکریوں میں بہتری کے لئے ضروری ہے کہ آبادی کے تناسب سے تمام مکاتبِ فکر کو اُنکا حصہ دیا جائے نہ کہ 15کو 85 پر مسلط کیا جائے۔