فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 53

فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 53
فلمی ، ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔۔۔ قسط 53

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

صبح ناشتاان کی دکان پر جا کر کرنا تھا۔ ہم نے سنا تھا کہ پشاور میں بچھو بہت ہوتے ہیں۔ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ اگر جوتا بھی پہنو تو پہلے اسے جھاڑ کر دیکھ لو کہ اس کے اندر بچھو تو نہیں ہے۔ کپڑوں میں‘ دیواروں پر‘ فرش پر‘ الماریوں میں ہر جگہ بچھو چھپے ہوتے ہیں۔ ہم سہمے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ ہمارے خوف کو دیکھ کر لالہ کے بیٹے نے ہر طرف خوب غور سے دیکھ کر تلاشی لی پھر ہمیں اطمینان دلانے کے لئے بولے ’’ویسے ہر طرف تو دیکھ لیا ہے مگر کبھی کبھی چھت پر سے بھی بچھو ٹپک پڑتے ہیں۔‘‘
ہمارا ڈر کے مارے براحال ہو گیا۔ نہ جانے کس طرح وہ رات ہم نے گزاری۔ صبح تنگ سے غسل خانے میں جاتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا مگر لالہ کے بیٹے نے پہلے جا کر غور سے دیکھا بھالا اور پھر لائن کلیئر دے دی۔ ان دنوں ہماری بہن بھی پشاور ہی میں مقیم تھیں۔ بہنوئی ائر فورس میں تھے اور جب ہم ان کی کوٹھی پر گئے تو اس صاف ستھرے ماحول کو دیکھ کر جی چاہا کہ رات وہیں رہا کریں مگر لالہ رضامند نہیں ہوئے۔

قسط نمبر  52 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’دیکھو بیٹا۔ یہ پٹھانوں کی بے عزتی ہے کہ ان کا مہمان کسی اور کے گھر رہے‘ اپنی بہن کے گھر رہنا ہے تو تم دوبارہ پشاور آجانا۔‘‘
لالہ نے دو دن ہمیں پشاور میں مہمان رکھا اور ہمارا رات کے وقت خون خشک ہوتا رہا۔ تیسرے دن انہوں نے اپنے بیٹے کی جیب میں نوٹوں کی ایک گڈی ڈالی اور ہمیں اس کے ہمراہ مری اور نتھیا گلی کی سیر کے لئے روانہ کر دیا۔ بیٹے کو انہوں نے تاکید کی تھی کہ اگر آفاقی نے ایک پیسہ بھی خرچ کیا توتمہاری خیریت نہیں ہے۔ اس طرح پہلی بار مری اور نتھیا گلی کی سیر ہم نے لالہ وزیر محمد کا مہمان بن کر ان کے خرچے پر کی تھی۔ یہ دراصل ان کی طرف سے اس بات کی تلافی تھی جس کی وجہ سے ہم ناراض ہو گئے تھے‘ ایسے وضع دار لوگ اب کہاں؟
ان کا بیٹا راولپنڈی کے ریلوے اسٹیشن تک ہمیں چھوڑنے آیا۔ ٹرین رات کو تین بجے جانے والی تھی۔ اتنی دیر تک وقت گزارنا بھی ایک مسئلہ تھا۔ اسی ہفتے راولپنڈی میں محبوب صاحب کی فلم ’’آن ‘‘ ریلیز ہوئی تھی جس کا بہت شہرہ تھا۔ سوچا فلم دیکھ کر وقت گزارا جائے مگر سنیما پہنچے تو ایک قیامت کا سامان تھا۔ آدمی پر آدمی چڑھا ہوا تھا۔ پچاس پچاس روپے میں ٹکٹ بلیک ہو رہے تھے۔ اس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی مگر لالہ کے بیٹے نے فوراً سو روپے نکال کر بلیکئے کے حوالے کر دےئے۔
’’ارے ارے یہ کیا کرتے ہو۔ اتنا مہنگا ٹکٹ لینے کی کیاضرورت ہے۔ ہم لاہور جا کر یہ فلم دیکھ لیں گے۔‘‘
اس نے کہا ’’آفاقی بھائی۔ اگر لالہ کو پتا چل گیا کہ تم فلم دیکھنے گئے تھے مگر ٹکٹ نہ ملا اور واپس لوٹ گئے تو وہ مجھے گولی مار دے گا۔‘‘
چنانچہ اس غریب کو گولی سے بچانے کے لئے ہم نے فلم ’’آن‘‘ پچاس روپے کے ٹکٹ پر دیکھی۔
شباب صاحب کے دفتر میں ایکٹریسوں کی آمدورفت کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہا۔ ڈائریکٹر کے دفتر میں بھی لڑکیاں آتی رہتیں تھیں۔ جب وہ فلم ساز بنے تو اس تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ ان میں زیادہ ابھرتی ہوئی ایکٹریس یا اداکارہ بننے کی امیدوار لڑکیاں ہوتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ شباب صاحب اپنی فلم میں اکثر نئی لڑکیاں متعارف کراتے رہتے تھے جو خود بخود ان کے دفتر میں پہنچ جاتی تھیں۔
ڈائریکٹر کے دفتر میں ہی انہوں نے اپنی پہلی فلم’’ جلن ‘‘ بنائی۔ دراصل چودھری فضل حق نے کسی کے اشتراک سے یہ فلم بنائی تھی۔ فلم سازی کا تمام کام شباب صاحب نے کیا تھا اور اے۔حمید اس کے ہدایت کار تھے۔ اے حمید پرانے کیمرا مین تھے اور شباب صاحب کے یار غار تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ صحافت اور فلم میں شباب صاحب کو متعارف کرانے کا سہرا اے حمید ہی کے سر جاتا ہے۔ وہ شباب صاحب کے اس وقت سے قائل تھے جب انہیں کوئی شاعر نہیں مانتا تھا۔ انہوں نے ہی اخبار کے مالکوں اورفلم سازوں سے شباب صاحب کاتعارف کرایا اور بعد میں جب وہ فلم ساز بنے تو اپنے اثرو رسوخ کی بنا پر ان کے بہت سے کام آئے۔ اے حمید ایک عجیب شخصیت تھے۔ ان کے بارے میں آپ آئندہ پڑھیں گے۔
’’ جلن ‘‘ کے ہیرو عنایت حسین بھٹی تھے۔ مزاحیہ اداکار دلجیت مرزا بھی پہلی بار اسی فلم میں پیش کئے گئے تھے۔ یہ فلم کامیاب نہ ہو سکی۔ چودھری فضل حق صاحب نے دوسری فلم بنانے کے لیے ایک زمیندار بابو مجدد صاحب سے معاہدہ کیا۔ یہ فلم ’’ ٹھنڈی سڑک ‘‘ تھی جس کی کہانی ہماری لکھی ہوئی پہلی فلمی کہانی تھی لیکن فلم کے آغاز سے پہلے چودھری صاحب اور ان کے پارٹنر میں اختلاف پیدا ہو گیا۔بابو مجدد نے شباب صاحب سے شکایت کی۔ شباب صاحب نے چودھری صاحب سے اس سلسلے میں بات کی تو وہ ناراض ہو گئے۔
’’ حافظ جی۔ آپ میرے مقابلے میں ایک نئے آدمی کی حمایت کر رہے ہیں ؟‘‘
شباب صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کا موقف درست ہے اور آپ کو ان کے ساتھ نا انصافی نہیں کرنی چاہیے۔ بس اسی بات پر چودھری صاحب بھڑک اٹھے۔ اور کہا ’’ فیصلہ کر لیجئے آپ ان کے ساتھ ہیں یا میرے ؟‘‘
’’ میرے خیال میں وہ حق بجانب ہیں ‘‘ شباب صاحب نے کہا۔
’’ تو پھر آج کے بعد آپ سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ آپ ’’ ڈائریکٹر ‘‘ چھوڑ دیجئے۔‘‘
شباب صاحب نے اپنے کاغذات سنبھالے اور تانگے میں بیٹھ کر گھر چلے گئے۔مگر یہ بہت کڑوی گولی تھی۔ ڈائریکٹر سے انہیں معقول تنخواہ ملتی تھی۔ اثرو رسوخ بھی بہت تھا لیکن انہوں نے اصول کی خاطر سب کچھ تیاگ دیا۔ اب حالت یہ تھی کہ کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہیں تھا۔ اگلا مہینہ کیوں کر گزرے گا‘ اس کا بھی علم نہیں تھا۔
بابو مجدد بہت سادہ‘ پر خلوص اوردوست نواز آدمی تھے۔ بالکل دیہاتی تھے مگر دل کے بہت اچھے تھے۔ وہ دراصل اے حمید کے توسط سے چوہدری فضل حق سے ملے تھے اور ان ہی کے زیادہ شنا سا تھے۔ جب انہیں پتا چلا کہ ان کی خاطر شباب صاحب نے چوہدری فضل حق کو چھوڑ دیا ہے تو وہ شباب صاحب کے پاس پہنچ گئے اور ان سے کہا کہ آپ فلم بھی بنائیں اور فلمی پرچہ بھی نکالیے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے سمن آباد میں دفتر کے لئے ایک کوٹھی کرائے پر لے دی اور فلم کا کام شروع ہو گیا۔ شباب صاحب نے ’’پکچر‘‘ کے نام سے ایک فلمی ماہنامہ بھی نکالنا شروع کر دیا۔ بابو مجدد نے شباب صاحب کے لئے رہنے کا بندوبست بھی کر دیا اور اپنی زمینوں سے کھانے پینے کا سامان بھی فراہم کر دیا۔ اس طرح فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ کا آغاز ہوا۔
ابتدائی دور کی ایک شخصیت انور کمال پاشا بھی تھے۔ وہ بہت بڑے مصنف اور ڈراما نویس حکیم احمد شجاع پاشا کے اکلوتے بیٹے تھے۔ یعنی واحد اولاد نرینہ تھے۔ اس لئے باپ کے بے حد لاڈلے اور منہ چڑھے تھے۔ حکیم احمد شجاع اپنے عہد کی بہت اہم شخصیت تھے۔ ڈرامے اور فلم سے ان کا تعلق پرانا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سہراب مودی جیسے ہدایت کار ان سے کہانی لکھواتے رہے۔
انور کمال پاشا ایک خوب رو گورے چٹے اور بے حد ذہین آدمی تھے۔ ایم اے پاس کرنے کے بعد انہوں نے ایکسائز کے محکمے میں ملازمت کر لی مگر فلم کے شوق نے اطمینان سے بیٹھنے نہیں دیا۔ شفیق باپ نے بھی ان کا شوق دیکھتے ہوئے فلم سازی شروع کر دی۔ ’’شاہدہ‘‘ کے فلم ساز جس کے ہدایت کار لقمان صاحب تھے‘ حکیم احمد شجاع ہی تھے۔ انور کمال پاشا فلم کے سیٹ پر آتے رہتے تھے اور ہدایت کاری کے رموز سیکھنے کی کوشش میں تھے۔ تحریر کا ملکہ انہیں وراثت میں ملا تھا۔ ’’شاہدہ‘‘ تو کامیاب نہ ہوئی مگر انور کمال پاشا نے فیصلہ کر لیا کہ فلم سازی اور ہدایت کاری کئے بغیر چین سے نہ بیٹھیں گے چنانچہ اچھی بھلی نوکری چھوڑ چھاڑ کر فلموں کی دنیا میں چلے آئے۔ ان کی ذہانت‘ فراست اور صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ایک تقسیم کار شیخ لطیف نے انہیں ہدایت کاری کے فرائض سونپ دیے۔ ان کی پہلی فلم ’’دوآنسو‘‘ تھی جس میں صبیحہ اور سنتوش نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
دوآنسو پاکستان کی پہلی اردو فلم تھی جس نے سولو سنیما میں سلورجوبلی منائی۔ اس کی کامیابی سے انور کمال پاشا کے حوصلے بہت بلند ہو گئے۔ ان کی دوسری فلم ’’گبھرو‘‘ تھی۔ اس میں بھی سنتوش کمار کے ساتھ شمیم ہیروئن کے کردار میں تھیں۔ یہ فلم 1950ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس طرح پاکستان کے اولین فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں انور کمال پاشا کا نام بھی شامل ہے۔ بعد میں انہوں نے فلم سازی اور ہدایت کاری میں بہت نام پیدا کیا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ پاکستان کے ممتاز ترین اور کامیاب ترین فلم ساز وہدایت کار بن گئے۔ ان کے مکالموں نے فلم بینوں پر سحر طاری کر دیا تھا۔ وہ پاکستان کے واحد مصنف‘ فلم ساز اور ہدایت کار تھے جن کے نام پر لوگ سنیما گھروں پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ان کا نام معیار اور کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا۔ فلمی دنیا میں ان کا ڈنکا بج رہا تھا۔ دولت‘ شہرت اور کامیابی ان کے گھر کی کنیزیں تھیں۔جاری ہے

اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)