جب ایک جادوگرنی حضرت عائشہؓ کے پاس پہنچی 

جب ایک جادوگرنی حضرت عائشہؓ کے پاس پہنچی 
جب ایک جادوگرنی حضرت عائشہؓ کے پاس پہنچی 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: یونس مسعود
جادو کے متعلق اِمام حاکم نے المستدرک میں اور ابن کثیر رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنی تفسیر میں حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے ایک واقعہ روایت کیا ہے۔ آپ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں:
’’رسول اللہ اکی وفات کے تھوڑے عرصے بعد دومۃ الجندل کے باشندوں میں سے ایک عورت میرے پاس آئی۔ وہ رسول اللہ اسے مل کر جادو کے متعلق کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب اس عورت نے رسول اللہ ا کو نہیں پایاتو میں نے اسے اس قدر روتے ہوئے دیکھا کہ اس کے رونے کی شدت سے مجھے ترس آ گیا۔ وہ عورت کہہ رہی تھی کہ ’’مجھے ڈر ہے کہ میں ہلاکت میں جا پڑی ہوں‘‘۔ میں ( یعنی حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا )نے اس سے واقعے کی تفصیل پوچھی تو اس نے مجھے بتایا:’’میرا شوہر مجھ سے دور چلا گیا تھا۔ پھر ایک بوڑھی عورت میرے پاس آئی تو میں نے اس سے اپنے حال کا شکوہ کیا۔ اس نے کہا کہ اگر تو وہ سب کرے جس کا میں تجھے حکم دوں تو تیرا خاوند تیرے پاس لوٹ آئے گا۔ میں نے کہا کہ ہاں میں کروں گی۔جب رات ہوئی تو وہ میرے پاس دو سیاہ کتوں کو لے کر آئی۔ ان کتوں میں سے ایک پر وہ خود سوار ہو گئی اور دوسرے پر میں سوار ہوئی۔ ان (کتوں) کی رفتار زیادہ تیز نہ تھی۔ (ہم چلتے رہے)، یہاں تک کہ شہر بابل پہنچ کر رکے۔ وہاں دو آدمی اپنے پیروں سے ہوا میں لٹکے ہوئے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ تجھے کیا ضرورت ہے؟ اور کیا ارادہ لے کر آئی ہے؟ میں نے (اپنی حاجت بیان کی اور ) کہا:’’ جادو سیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ انہوں نے کہا :’’بے شک ہم آزمائش ہیں، لہٰذا تو کفر نہ کر اور واپس لوٹ جا۔‘‘ میں نے انکار کیا اور کہا کہ میں نہیں لوٹوں گی۔ انہوں نے کہا :’’تو اس تندور میں جا کر پیشاب کر۔ ‘‘میں وہاں تک گئی تو کانپ اٹھی۔ میں خوفزدہو گئی اور پیشاب نہ کر سکی اور یونہی ان دونوں کے پاس لوٹ آئی۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا:’’ کیا تو نے پیشاب کیا؟ ‘‘
میں نے جواب دیا: ’’ہاں!‘‘۔
انہوں نے پوچھا :’’ کیا تو نے کوئی چیز دیکھی؟‘‘ 
میں نے جواب دیا:’’ میں نے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
انہوں نے کہا:’’ تو نے پیشاب نہیں کیا، اپنے وطن لوٹ جا اور کفر نہ کر۔‘‘
میں نے انکار کیا۔ چنانچہ انہوں نے پھر کہا :’’ اس تندور تک جا اور اس میں پیشاب کر۔‘‘ 
میں وہاں تک گئی، پھر مجھ پر کپکپاہٹ طاری ہو گئی اور میں ڈر گئی۔ پھر میں ان کے پاس لوٹ گئی۔ انہوں نے مجھ سے پھر پوچھا:’’ تو نے کیا دیکھا؟‘‘ یہاں تک کہ اس نے بتایا کہ میں تیسری مرتبہ گئی اور تندور میں پیشاب کر دیا۔ پس میں نے دیکھا کہ میرے اندر سے لوہے کے گلو بند والا ایک گھوڑسوار نکلا اور آسمان کی طرف چلا گیا۔ تب میں ان کے پاس آئی اور انہیں اس بات کی خبر دی۔ انہوں نے کہا:’’ تو نے سچ کہا، یہ تیرا ایمان تھا جو تیرے اندر سے نکل چکا ہے، اب تو لوٹ جا۔‘‘ 
پس میں (یعنی حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا) نے اس عورت سے کہا:’’اللہد کی قسم! میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی اور کہا، کیا انہوں نے اس کے علاوہ بھی تجھے کچھ بتایا ہے؟ ‘‘اس نے جواب دیا:’’ہاں ضرور بتایا ہے کہ آپ جو چاہیں گی وہ ہو جائے گا۔ یہ گیہوں(گندم) کے دانے لیجئے اور ان کو زمین میں بو دیجئے۔ چنانچہ میں نے وہ دانے لے لیے، اس نے کہا:’’ نکل آ!‘‘، تو پودے نکل آئے۔ پھر اس نے کہا:’’ فصل کٹ جا!‘‘، تو فصل کٹ گئی۔ پھر اس نے کہا:’’پس کر آٹا بن جا!‘‘، تو آٹا بن گیا۔ پھر اس نے کہا:’’ روٹی پک جا!‘‘ تو روٹی پک کر تیار ہو گئی۔ جب اس( عورت) نے دیکھا کہ میں (یعنی حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا) پھر بھی کچھ نہیں بولی تو وہ میرے سامنے شرمندگی سے گر پڑی اور کہنے لگی: ’’ اے ام المومنین(رضی اللّٰہ عنہا)! میں نے اس کے علاوہ کبھی کچھ نہیں کیا۔‘‘ چنانچہ میں نے رسول اللہ ا کے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے اس بارے میں دریافت کیا لیکن انہیں بھی اس بارے میں معلوم نہیں تھا کہ(اس معاملے پر) کیا کہیں۔ (جس چیز کا مکمل علم نہ ہو اس کے متعلق صحابہ ث اپنی رائے دینے میں احتیاط کیا کرتے تھے )۔ انہوں نے صرف اتنا کہا:’’ اگر آپ کے والدین یا ان میں سے کوئی بھی حیات ہوتے تو وہ آپ کے لیے کافی ہوتے۔‘‘
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث صحیح ہے۔‘‘ 
(ابنِ جریر، التفسیر۔ بیہقی، السنن۔ حاکم، المستدرک علی الصحیحین۔ ابن قدامہ المقدسی عن المغنی: ۸/ ۱۵۲)
اس واقعے کے پیش نظر حقیقت میں بات یہ ہے کہ ہاروت ماروت کو اللہ تعالیٰ نے خیرو شر اور کفرو ایمان کا علم دے دیا تھا۔ اس لیے وہ ہر ایک کفر کی طرف جھکنے والے کو نصیحت کرتے اور ہر طرح روکتے۔ جب وہ نہ مانتا تو ا س سے وہ مخصوص کلمات کہہ دیتے جس سے اس کا نورِ ایمان جاتا رہتا۔ وہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا اور اسے جادو آ جاتااور یہی اس عورت کے ساتھ ہوا۔

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والی تحریریں لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔