ماحولیاتی آلودگی اور نسلِ انسانی کا رویہ
گزشتہ کئی برسوں کی طرح امسال بھی چند روز پہلے جب عالمی ارتھ آور منایا گیا اور ہر ملک میں مقامی وقت کے مطابق رات8:30 بجے سے 9:30 تک گھروں، محلوں، دفاتر اور تمام دیگر مقامات کی روشنیاں بند کر کے موم بتی کا استعمال کیا گیا تو اندھیرے میں بیٹھ کر مَیں یہی سوچتا رہا کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی گئی اس زمین سے فائدہ تو ہم ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے، سال کے365 دن اُٹھاتے ہیں اور اس سے اظہارِ یکجہتی اور اس سے حاصل ہونے والی نعمتوں کے اعتراف کے طور پر صرف ایک گھنٹے کے لئے روشنیاں گل کرتے ہیں۔
ارتھ آور ایک عالمی تحریک ہے۔ یہ دن منانے کا آغاز 2009ء سے ہوا تھا اور اس کا مقصد لوگوں کو یہ بتانا اور ان میں اس حوالے سے شعور اُجاگر کرنا ہے کہ توانائی ضائع نہ کریں، خاص طور پر بجلی کی توانائی زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کریں۔
میری سوچ کا یہ محور بھی تھا کہ کیا اس ایک گھنٹے میں ہم زمین کا اپنے اوپر واجب حق ادا کر دیتے ہیں؟ کیا اس طرح ہم اسے آلودگی اور دوسری خرابیوں سے محفوظ و مامون رکھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اس زمین سے جو کچھ حاصل کرتا ہے، اس کا عشر عشیر بھی اس کی بحالی پر توجہ نہیں دیتا۔ ہماری زمین کو اِس وقت جو دو سب سے بڑے خطرات لاحق ہیں وہ تیزی سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور فضائی و آبی آلودگی ہے۔
پہلے درجہ حرارت کی بات کرتے ہیں۔اس وقت اوسط عالمی درجہ حرارت15ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔اگرچہ ارضیاتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ ماضی میں اس میں کمی بیشی ہوتی رہی ہے،لیکن حالیہ اضافہ زیادہ تشویشناک ہے۔ گزشتہ سو برسوں میں دُنیا کے اوسط درجہ حرارت میں0.8درجے کا اضافہ ہوا ہے اور اس میں سے 0.6 درجے اضافہ پچھلے تین عشروں میں دیکھنے میں آیا ہے،یعنی گزشتہ ایک صدی کے پہلے ستر برسوں میں زمین کا درجہ حرارت محض0.2 درجے بڑھا اور آخری 30برسوں میں درجہ حرارت کے بڑھنے کی رفتار میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے درجہ حرارت بڑھنے کی رفتار اس وقت بھی یہی ہے،چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ اگلے تین عشروں میں درجہ حرارت مزید 0.6 درجے بڑھ جائے گا۔افریقی ملک روانڈا میں کچھ عرصہ پہلے ڈیڑھ سو ممالک نے عالمی تپش میں اضافہ روکنے کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس معاہدے پر عمل درآمد ہو سکے گا؟
یہ سوال اِس لئے ذہن میں آتا ہے کہ 2016ء کے اسی مہینے میں پیرس میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے سلسلے میں اقدامات کرنے کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا، جسے پیرس معاہدہ کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں امریکہ بھی شامل تھا، لیکن جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بنے تو انہوں نے اس معاہدے کے تحت طے پانے والی شرائط اور سفارشات پر عملدرآمد سے انکار کر دیا تھا، حالانکہ امریکہ کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے،جو فضا میں سب سے زیادہ مضر صحت گیسیں چھوڑ کر ہوا اور فضا کو آلودہ کررہے ہیں۔
ایسی گیسوں کا اخراج اتنا زیادہ ہے کہ سائنس دانوں نے تشویش ظاہر کرنا شروع کر دی ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں کی جانے والی اس برق رفتار تبدیلی سے مستقل میں زمین کے موسم پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اثرات شدت کے ساتھ ظاہر ہونا شروع بھی ہو چکے ہیں۔دور کیا جانا پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے،جو موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔یہاں کبھی برسات کے موسم میں بھی مناسب مقدار میں بارشیں نہیں ہوتیں اور کبھی اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ سیلاب پوری ایک رواں دواں زندگی کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے تو یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کے ہی شاخسانے ہیں۔
جب سے سائنسی ترقی ہوئی ہے کارخانوں اور زراعت کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے استعمال میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یہ سب عوامل گرین ہاؤس گیسیں فضا میں داخل کر کے قدرتی گرین ہاؤس اثر بڑھاوا دے رہا ہے،جس سے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس عمل کو عالمی تپش یا ماحویاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔گرین ہاؤس اثر اس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے،جس کی مدد سے زمین سورج سے حاصل شدہ توانائی کو مقید کر لیتی ہے
سورج سے آنے والی حرارت روشنی کی شکل میں زمین کی سطح سے ٹکرانے کے بعد منعکس ہو کر واپس خلا میں بکھر جاتی ہے۔ تاہم کرہ ہوائی میں موجود گیسیں اس حرارت کے کچھ حصے کو جذب کر لیتی ہیں، جس سے کرہ ہوائی کا نچلا حصہ اور زمین کی سطح دونوں گرم ہو جاتے ہیں۔ سائنس دانوں کی تحقیق یہ کہتی ہے کہ اگر یہ عمل نہ ہوتا تو اس وقت زمین 30درجہ زیادہ ٹھنڈی ہوتی، اور اس پر زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ گرین ہاؤس گیسز زیادہ پیدا ہونے کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں پہاڑوں پر واقع گلیشیر اور قطبی برف کی تہہ پگھل رہے ہیں۔ مصنوعی سیاروں سے لی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قطبی برف میں ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے۔ حاصل کلام یہ کہ زمین کو انسانی آبادی کی وجہ سے درپیش مسائل محض ایک گھنٹہ روشنیاں گل کر لینے سے ختم نہیں ہوں گے۔
اس کے لئے ہمیں اپنی کوششیں مستقلاً جاری رکھنا ہوں گی۔ پٹرولیم مصنوعات کا استعمال کم کرنا ہو گا اور ایندھن کے دوسرے ذرائع تلاش کرنا ہوں گے، جن سے کم مضر صحت اور مضر ماحول گیسیں خارج ہوں۔فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں کو بھی کنٹرول کرنا ہو گا۔