کشمیر میں مودی اور محبوبہ مفتی کی سیاست

کشمیر میں مودی اور محبوبہ مفتی کی سیاست
کشمیر میں مودی اور محبوبہ مفتی کی سیاست

  

آجکل بھارت میں لوک سبھا کے انتحابات کی تیاریاں اپنے عروج پر ہیں،بھارت میں اس وقت درجنوں چھوٹی بڑی جماعتیں سر گرم ہیں۔مگر بھارت کی سیاست دو جماعتی سیاسی نظام کی وجہ سے مشہور ہے۔بی ۔جے۔پی سے پہلے بھارت کی سیاست میں صرف کانگریس ہی واحد سیاسی جماعت تھی کہ جو بر سر اقتدار آتی تھی۔اس جماعت نے تحریک آزادی ہندوستان میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔آزادی کے بعد بھی اس جماعت کا ہندوستان میں نہایت ہی اہم کردار ہے۔بھارت کے لوک سبھا میں سب سے زیادہ اسی پارٹی نے راج کیا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پارٹی پر گاندھی خاندان کا ہی قبضہ رہا۔اب بھی گاندھی خاندان کے راہول گاندھی اور پریانیکا گاندھی اقتدار لوٹنے کی پوری تیاری کر چکے ہیں۔بھارت کی دوسری بڑی جماعت بھارتی جنتا پارٹی(بی جے پی) ہے کہ جس پر انتہا پسندوں کا راج ہے کہ جو پاکستان دشمن ہیں۔ بھارت میں امریکہ اور برطانیہ کے سیاسی نظام کی طرح دو پارٹیوں کی ٹکر ہے۔نریندر مودی الیکشن جیتنے کیلئے کبھی تو پلوامہ کا ڈرامہ رچاتے ہیں،کبھی اپنے ہی فوجیوں کو کشمیر میں شہید کروا کر ان کی ماتاؤں کے پاؤں چھو کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان کو ہندوستان کی عوام سے بہت عقیدت ہے۔نریندر مودی بھارت میں گجرات حملے کی بھی ذمہ دار ہے۔

کشمیر ،کہ جو بھارت کیلئے نہایت اہم ہے،کہ جس کے دریاؤں کے پانی سے بھارت کی فصلیں اگتی ہیں کہ جوبھارت کو سینٹرل ایشیا سے جوڑتا ہے کہ جس کی سیاحت کے پیسوں سے بھارت کی بھوکی عوام پیٹ بھر کر کھانا کھاتی ہے۔کہ جس کے پہاڑوں میں چھپے خزانوں سے بھارتی عوام خوب واقف ہے۔اسی کشمیر کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ اگر بی جے پی برسر اقتدار آئی تو آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ کر دیا جائیگا۔یہ آرٹیکل جمعوں کشمیر کو بھارت کی دیگر تمام ریاستوں سے الگ مقام عطا کرتا ہے۔اس آرٹیکل کے مطابق ریاست بہت سے امور میں فیصلے لینے میں آزاد ہے۔اس آرٹیکل کے ختم ہونے سے ریاست جمعوں کشمیر مکمل طور پر غلام ریاست بن جائیگی۔اس اعلان کے بعد کشمیر کی سیاسی جماعت کی رہنما محبوبہ مفتی نے مودی کو اور ان کی جماعت کو للکارتے ہوئے کہا اگر ۳۷۰کا نفاذ کیا گیا تو اس سے بھارت اور کشمیر کا رشتہ ٹوٹ جائیگا۔ان کایہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر کا بچہ بچہ بزرگ بزرگ آج بھی آرٹیکل ۳۷۰ کیلئے اپنے خون کا قطرہ قطرہ دینے کو تیار ہے۔

اگر آرٹیکل ۳۷۰ کا خاتمہ کیا گیا تو کشمیر میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے ،کشمیر اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلیں گے۔پھر بھارتی فوج ان پر لاٹھی چارج کریگی ان پر پتھراؤ کریگی۔ان کے حکمرانوں کو نظر بند کیا جائیگا۔دراصل اس کا نفاذ پنڈت جواہر نہروکے حکم پر کیا گیا تھا،نہرو کی جماعت کو ہرانے کیلئے نہرو نے ایسے اقدامات کئے۔ایسا پہلی بار نہیں کہ بھارت نے آرٹیکل ۳۷۰ اور آرٹیکل ۳۵ کو ختم کرنے کی دھمکی دی۔متعدد عناصر کی وجہ سے بھارت اس معاہدے کی بھی خلاف ورزی کرتا آیا ہے کہ جس کے مطابق کوئی غیر ملکی شخص کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتا۔ہر دوسرے تیسرے مہینے کشمیری جماعتوں کی طرف سے بھارتیوں کے زمین خریدنے کے معاملے پر شدید ترین ردّ عمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔

کشمیری خود پر ہونے والے ظلم سے خوب واقف ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ ان کے وسائل کو کس نے لوٹا،کون ان کے مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتا۔کیوں غیر ملکی ان کی سرزمین سے نکلنا نہیں چاہتے۔جب بھی کشمیری اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلتے ہیں،پر امن احتجاج سے اپنے حقوق مانگتے ہیں تو ان کو جسمانی و ذہنی تشدّد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

خود بھارت کی فلموں اور داستانوں کو اس بات کو خوب موضوع سخن بنایا جاتاہیکہ جب کوئی اپنا حق نہ دے تو چھین لو،قانون کو اپنے باتھوں میں لے لو۔تحریک آزای ہندوستان کے ایسے ہی واقعات کو بھارتی میڈیا اور بالی ووڈ خوب ہائی لائٹ کرتا ہے ۔مگر کشمیری جب حق مانگیں تو انھیں دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔کشمیریوں کی طرف سے ان پر ہونے والے ظلم کا ذرا بھی ردّ عمل سامنے آجائے تو ان کو دہشت گرد کہہ کر ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔جھوٹ موٹ کے مقدمے چلا کر انھیں زندانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

درد کی رنج کی تصویر بنا پھرتا ہوں

میں ترے ہجر میں کشمیربناپھرتاہوں

ہندوستان کو یہ بات ضرور سمجھ لینی چاہیے کہ تحریک آزادی ہندوستان کے وقت انھوں نے کچھ ایسے ہی ہتھکنڈوں سے کام کیا تھا تو ان کے خلاف کروڑوں لوگ بغاوت پر اتر آئے تھے۔میرا اشارہ ہندوستان میں رہنے والے وہ مسلمان ہیں کہ جنہوں نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ہندوستان نے تب بھی مسلمانوں کے حقوق ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس کے نتیجے میں بندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔کشمیر میں رہنے والے کشمیری بہت پر امن ہیں مگر کشمیر میں قابض فوج ظلم کی بربریت کی داستانیں قائم کرتی ہے۔آج کے دور میں کب ایک ملک کے ٹکڑے ہو جائیں اورکب چھوٹے چھوٹے گروہ ملکر پورے اقوام عالم کو ہی چیلنج کردیں پتہ ہی نہیں چلتا۔شائد وہ وقت بھی دور نہیں کہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومتیں اورحکمران بھی بھارت کا ساتھ چھوڑ جائیں گی۔

بات چاہے دور کی ہی کیوں نہ ہو،مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کہ جس نے اس خطے میں اپنے پنجے مضبوط کر لئے ہیں۔تیسری دنیا کے سامنے تو چین ایک معصوم ملک ہے مگر حقیقت میں یہ اتنا شاطر ہیکہ عالمی طاقتوں کے فیصلوں کو ویٹو کر دے۔چین کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات کشمیر کے معاملے پر خراب رہ چکے ہیں۔

جدید دنیا کو یاد ہے کہ افریقہ کے ایک ملک میں ایک ریڑھی لگانے والے نے بغاوت کا اعلان کیا تو اس ملک میں انقلاب برپا ہوا،جلد ہی اس انقلاب نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیکر برسوں کی آمرانہ حکومتوں کا ہی تخت الٹ دیا۔کب کیسی قائد میں اتنی صلاحیت پیدا ہو جائے کہ وہ کشمیر سے بھارت کو ہی بگھا دے،اس کا ادراک تو شاہد بھارت کے حکمران بھی نہ کر پائیں۔گو کہ کشمیریوں کو بیرون ملک ،تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کم ہی ملتے ہپیں،مگر ٹیکنالوجی نے جتنی ترقی کی ہے یہ کر رہی ہے تو اس کی بدولت چند منٹوں میں دنیا میں غیر معمولی واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔جس طرح تحریک آزادی ہندوستان میں چند قابل ترین افراد نے یورپ میں اٹھنے والی تحریکوں اور انقلابوں کو دیکھا اور تحریک آزادی ہندوستان میں اہم کردار ادا کیا تھا،اسی طرح ہزاروں کشمیری، دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں موجود ہیں۔یہ کب انقلاب برپا کر دیں ،کب بغاوت کر کے دشمن کو ناکواں چنے چبوا دیں،اس کا ادراک مودی کی ماتا بھی نہیں کر سکتی۔

اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے بھارت کشمیر سے باتھ ضرور دھو بیٹھے گا۔چاہے بھارت اپنی طاقت کے زور سے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لے،کسی بھی صورت کشمیر کے تشخص کو نہیں مٹا سکتا۔دنیا میں قانون کی بالاستی کرنے کیلئے ،انسانی حقوق کا پرچار کرنے کیلئے آج بھی بہت سے ادارے موجو ہیں۔رواں سال لائن آف کنٹرول اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کے معاملے پر کشمیر میں جو کچھ ہوا،حالات کی کشیدگی کی وجہ سے کشمیریوں کی بے بسی پر پوری دنیا نے تشویش کا اظہار کیا۔ گو کہ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کیلئے بھارت کو سپورٹ کرتی ہیں ،مگر بڑی طاقتیں بھارت کو خطے کا ایک مضبوط ایکٹر کبھی نہیں بننے دیں گی۔مودی کی کشمیر کے بارے میں سوچ کو یکھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستان والو

تمھاری داستاں تک نہ رہے گی داستانوں میں

اگر اس بار بی جے پی برسراقتدار آئی تو کبھی بھی کشمیریوں کے دل سے مودی کے خلاف نفرت نہیں نکل پائیگی۔پھر شائد آنے والے چند سالوں میں کشمیر میں وہی تحریکیں پھوٹ پریں کہ جو۱۹۸۸ء کی دہائی میں پھوٹی تھیں۔اور محبوبہ مفتی اپنی سیاست ضرور کریں ،مگر ساتھ میں کشمیریوں کے حقوق کی صحیح معنوں میں ترجمانی بھی کریں۔کیونکہ انھیں اکژ یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے،شائد اسی طرح کی قیادت کی وجہ سے کشمیری ایک لاکھ جانیں قربان کرنے کے باوجود آزادی سے محروم ہیں۔محبوبہ مفتی جی !ایسی سیاست کرنے سے تو سوشل میڈیا پر یا پھر کسی مخصوص طبقے میں تو مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے ،مگر کشمیریوں کے دلوں پر راج نہیں کیا جا سکتا۔الیکشن کے دلوں میں مودی کو للکارنے سے کشمیر میں ہونے والی ظلم کی بربریت کی داستانیں کم نہیں ہو سکتی ۔آج کشمیر کا بچہ بچہ یہ دعا ضرور مانگتا ہے۔

خدا سے منت ہے میری

لوٹا دے جنت وہ میری

وہ امن ،وہ چمن کا نظارہ

او خدالوٹادے کشمیر دوبارہ

چاروں طرف تو پہلے

سکون ہی سکون تھا

عوام کو وطن سے

عشق کا جنون تھا

اب یہاں قتل ہے

اب وہاں خون ہے

میری اولادمیرے

کشمیر سے محروم ہے

مرا کشمیر سنوارا کیوں

جب اسے یوں اجڑنا تھا

خوشنمامنظر پر خنجر کیوں چلایا

او خدایا! لوٹا دے کشمیر دوبارہ

میری روح کی تصویر،میرا کشمیر

چاہے کفن کا جوڑامجھ کو پہنا دے تو

میرے بچے کو کشمیر دکھا دے تو

وہ میرا گلستان بن گیا شمشان

یہاں موت کی د ہلیز پر کھڑا ہے ہر انسان

تمنا ہے گزارش ہے ،درد دل کی خواہش ہے

ڈوبتی کشتی کو تو دلا دے کنارا

او خدایا!لوٹا دے کشمیر دوبارہ

میرا کشمیر،میرا کشمیر،میراکشمیر۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

۔

اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’dailypak1k@gmail.com‘ پر بھیج دیں۔ 

مزید :

بلاگ -