میر شکیل الرحمن کی درخواست ضمانت مسترد، مزید 11روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے

میر شکیل الرحمن کی درخواست ضمانت مسترد، مزید 11روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور(نامہ نگارخصوصی)لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس سرداراحمد نعیم اور مسٹر جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل ڈویژن بنچ نے پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں جنگ اورجیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی رہائی کیلئے دائردرخواست مسترد کر دی۔ فاضل بنچ نے قراردیاکہ جسمانی ریمانڈ کے مرحلہ پر ضمانت کی درخواست قابل پذیرائی نہیں، نیب پراسکیوٹر فیصل رضا بخاری نے عدالت کو بتایا کہ میر شکیل کو 26 سوال دیئے گئے لیکن ملزم میر شکیل نے تمام سوالات سے انکار کیا، پراسکیوٹر نیب نے اعتزاز احسن کی جانب سے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب کو ویڈیو لنک کے ذریعے تمام حقائق سے آگاہ کیا گیا تھا، نیب پراسکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ آج کل تو سپریم کورٹ میں اور حکومتی فیصلے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتے ہیں،کیس کی تمام کارروائی چیئرمین نیب کے علم میں ہے اور انکی ہدایات پر تحقیقات کی جا رہی ہیں،نیب پراسکیوٹر نے بتایا کہ ملزم میر شکیل الرحمن نے شریک ملزم میاں نواز شریف کی ملی بھگت سے غیر قانونی طور پر پلاٹوں پر ایگزمپشن حاصل کی، میر شکیل الرحمن کو ایل ڈی اے پالیسی کے خلاف پورا بلاک الاٹ کیا گیا. ملکی تاریخ میں ایل ڈی اے، سی ڈی اے، ڈی ایچ اے کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی نے سڑکوں کو کسی پلاٹ میں شامل نہیں کیا، ملکی تاریخ کا یہ پہلا کیس ہے جس میں کسی کو غیر معمولی رعایت دی گئی ہے،میر شکیل الرحمن ڈی ایل ڈی سے ملا اور خواہش کا اظہار کیا کہ اسے ایک ہی بلاک میں 54 کنال زمین پر ایگزمپشن دی جائے، اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے ملزم کی درخواست پر ایگزمپشن پر منظوری دی،سابق وزیر اعلیٰ نواز شریف نے سمری منظور کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ملزم میر شکیل کو خصوصی رعایت دی جائے، جسٹس سردار احمد نعیم نے نیب پراسکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا پالیسی میں ایسا ہے کہ سڑک بھی ایگزمپشن میں شامل کر دیا جائے؟ نیب پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایسا نہیں ہوتا، سڑک ہمیشہ سڑک ہی رہتی ہے، نیب پراسکیوٹر کے لیے دلائل پر جواب میر شکیل الرحمن کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا میر شکیل الرحمن بوڑھا اور بیمار ہے، ضمانت پر رہا کیا جائے،میر شکیل الرحمن کہیں بھاگنے نہیں لگا، ملزم سے زر ضمانت یا شورٹی لے لی جائے،عتزاز احسن کا کہنا تھا کہنیب کے جواب میں کسی ویڈیو لنک کا ذکر نہیں، وارنٹ گرفتاری پہلے جاری کر دیئے اور انکوائری بعد میں کی گئی،نیب تسلیم کر رہا ہے کہ ابھی انکوائری مکمل نہیں ہوئی،نیب یہ بھی تسلیم کر رہا ہے کہ ملزم میر شکیل پر بزنس مین پالیسی کا نفاذ ہوتا ہے،تو پھر میر شکیل الرحمن کوکیوں گرفتار کیا گیا، فاضل بنچ نے تفصیلی دلائل سننے کے بعد میر شکیل الرحمن کی رہائی کی درخواستیں خارج کر دیں، یہ درخواستیں میر شکیل الرحمن نے خود اور ان کی اہلیہ شاہینہ شکیل کی طرف سے دائر کی گئی تھیں۔میر شکیل الرحمن کے وکیل امجد پرویز نے صحافیوں کے استفسار پر کہا کہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے حوالے سے مشاورت کے بعد کوئی اقدام کیاجائے گا۔
درخواست مسترد

لاہور(نامہ نگار)احتساب عدالت کے جج جوادالحسن نے غیرقانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں گرفتار جنگ و جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کومزید 11روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کے حوالے کردیا،دوران سماعت کمرہ عدالت میں ریکارڈنگ کرنے پر فاضل جج نے میرشکیل الرحمن کی بیٹی پر برہمی کا اظہار کیا،جس پر میر شکیل الرحمن کی بیٹی نے ریکارڈنگ ڈیلیٹ کر کے فاضل جج سے معذرت کرلی،کیس سما عت شروع ہوئی تو سپیشل پراسکیوٹر عاصم ممتاز کی طرف سے میر شکیل الرحمن کا مزید 15 روزہ جسمانی دینے کی استدعا کی گئی،سپیشل پراسیکیوٹر نے عدالت کوبتایا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کی درخواستیں خارج کر دی ہیں، میرشکیل الرحمن اور ان کی اہلیہ شاہینہ شکیل نے لاہور ہائیکورٹ میں گرفتاری چیلنج کی تھی، درخواستوں میں احتساب عدالت کے جسمانی ریمانڈ کے فیصلے بھی چیلنج کئے گئے تھے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بڑا ریکارڈ سیز کیا جا چکا ہے، ایم اے جوہر ٹاؤن کا اصل نقشہ ایل ڈی اے سے منگوایا ہے، میر شکیل پر بے مثال نوازشا ت کی گئیں، فاضل جج نے استفسار کیا کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ کا پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں کیا کردار تھا؟جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ نیب نے نواز شریف کو سوالنامہ تیار کر کے بھیجا ہے مگر بد قسمتی سے اس وقت کا وزیراعلیٰ پاکستان میں موجود نہیں، 180 کنال اراضی کی 30 فیصد ایگزمپشن 54 کنال بنتی ہے، ایگزمپشن پالیسی کے تحت ایک مالک کو 15 کنال زمین ایک جگہ الاٹ ہو سکتی تھی، میر شکیل نے محمد علی کے مختار عام پر ڈی جی ایل ڈی اے کو تمام پلاٹ یکجا کرنے کی درخواست دی، فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا اس وقت کے وزیراعلیٰ نے پالیسی میں کوئی نرمی کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف نے میر شکیل کو خصوصی رعایت دی، دوران سماعت میرشکیل الرحمن کی بیٹی کی جانب سے موبائل پر کارروائی کی ریکارڈنگ کرنے فاضل جج نے برہمی اظہار کرتے ہوئے نائب کورٹ کو حکم دیا کہ اس خاتون کو فوری طور پر باہر نکالاجائے،خاتون پولیس اہلکار کو بلاؤ اور اس کے موبائل کی ریکارڈنگ ڈیلیٹ کروائی جائے،میڈیا والے کوئی آسمان سے نہیں اترے، جس پر عدالت میں موجود میڈیا کے افراد نے کہا یہ خاتون میر شکیل کی بیٹی ہے جس نے ریکارڈنگ کی ہے، فاضل جج نے کہا کہ کیس کی کارروائی آگے نہیں بڑھاؤں گا جب تک ریکارڈنگ ڈیلیٹ نہیں کی جاتی، جس کے بعد میر شکیل الرحمن کا بیٹا میر ابراہیم اپنی بہن کو لے کر کمرہ عدالت میں داخل ہوا،وہاں مذکورہ خاتون نے عدالت سے معذرت کی،فاضل جج نے کہا کہ اس ریکارڑنگ کو فوری طور پر ڈیلیٹ کریں،عدالت کے اندر کسی بھی قسم کی ریکارڈنگ کی اجازت نہیں ہوتی، آئندہ ایسی حرکت نہ کی جائے، میرشکیل الرحمن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ گزشتہ ریمانڈ کے دوران بھی نیب نے ڈی جی ایل ڈی اے سے آمنا سامنا کروا نے کا کہا تھا آج بھی یہی کہا جا رہا ہے، نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم اپنے بھائی کی وفات کی وجہ سے 7 روز تک کراچی رہا، نیب نے انسانی بنیادوں پر راہداری ریمانڈ کی مخالفت نہیں کی تھی، ملزم میر شکیل کے کراچی میں موجود ہونے کی وجہ سے تحقیقات مکمل نہیں ہو سکیں، ا مجدپرویز نے کہا کہ ملزم کا ایل ڈی اے کے نقشہ سے کوئی تعلق نہیں، ملزم کے جسمانی کی درخواست مسترد کی جائے، نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ میر شکیل الرحمن نے اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف کی ملی بھگت سے ایک ایک کنال کے 54 پلاٹ ایگزمپشن پر حاصل کئے، ملزم کا ایگزمپشن پر ایک ہی علاقے میں پلاٹ حاصل کرنا ایگزمپشن پالیسی 1986ء کی خلاف ورزی ہے، ملزم میر شکیل نے نواز شریف کی ملی بھگت سے 2 گلیاں بھی الاٹ شدہ پلاٹوں میں شامل کر لیں، ملزم میر شکیل نے اپنا جرم چھپانے کیلئے پلاٹ اپنی اہلیہ اور کمسن بچوں کے نام پر منتقل کروا لئے، ملزم کو جسمانی ریمانڈ کے دوران 7 روز کیلئے راہداری ریمانڈ پر ملزم کے بھائی کی عیادت کیلئے کراچی منتقل کیا گیا، ملزم سے 13 روزہ جسمانی ریمانڈ کے دوران تحقیقات مکمل نہیں کی جا سکیں، عدالت نے دلائل سننے کے بعد میر شکیل الرحمن کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 11روز تک توسیع کرتے ہوئے انہیں 18اپریل کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔علاوہ ازیں کیس کی سماعت ملتوی ہونے کے بعدمبینہ طور پرایک غریب محنت کش جو پانی فروش کرتاہے نے اپنا1800روپے کا بل مانگنا تواسے پولیس کے حوالے کروا دیاگیا،معلوم ہواہے کہ غریب مزدور صبح سے اپنا بل لینے کیلئے بیٹھاا ہواتھا،بل مانگنے پر اس پرجیب تراشی کی کوشش کا الزام لگا کرمبینہ طور پرمیرشکیل الرحمن کے ساتھیوں نے اسے پولیس کے حوالے کروادیا۔
میر شکیل ریمانڈ

مزید :

صفحہ اول -