میں اونچی آواز میں”کھویا کھویا چاند، کھلا آسمان“ گانے لگا۔۔۔۔۔
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط :41
واپسی پر مرکزی چوک میں واپسی کی ویگن نہیں تھی۔ پتا چلا کہ شام کے وقت گلگت جانے والی ویگنیں بند ہو جاتی ہیں کیوں کہ اس وقت گلگت سے آ نے والی سواریاں تو ہوتی ہیں اُدھر جانے والی نہیں۔مجھے چوک کے ساتھ ایک درخت تلے زمین پر موچی بیٹھا نظر آیا تو میں کیمرے کا ٹو ٹا ہوا سٹریپ مر مت کروانے کےلئے اس کے پاس چلا گیا۔ میں نے اسے مسئلہ بتایا بلکہ دکھایا تو اس نے پہلے ایک کپڑے سے اپنی اوزاروں والی پیٹی کو جھاڑا پھر مجھے اس پر بیٹھنے کو کہا۔ میں اس کا شکریہ ادا کر کے بیٹھ گیا تو اس نے ہاتھ کا کام چھوڑا اورکیمرا پکڑکر سٹریپ کو ٹانکا لگانے لگا۔ ٹانکا لگاتے لگاتے اس نے آہستہ آواز سے پوچھا،”آپ چائے پیے گا؟“
میں نے حیرت سے ادھر اُدھر دیکھا کہ شاید وہ کسی واقف سے مخاطب ہے لیکن وہاں میرے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ میرے حیرت اور مسرت آمیز شکریے اور انکار پر وہ کام میں مصروف ہو گیا۔ ٹانکا لگنے کے بعد میں نے کیمرا دوبارہ کندھے پر لٹکاتے ہوئے موچی سے اجرت پوچھی تو اس نے دھیمی آواز میں کہا ،
”آپ ہمارا مہمان ہے۔ آپ سے پیسے نہیں لے گا۔“
میرے اصرار پر بھی وہ اپنی بات پر قائم رہا۔ میں تشکر اور محبت میں شرابور دوبارہ اڈے کے پاس آ کھڑا ہوا۔ مجھے حیرت تھی کہ ایسے لوگ کہانیوں سے باہر بھی ہوتے ہیں ! گلگت جانے والی ویگن کہیں نہیں تھی اور ہر ڈارئی ور کا کہنا تھا کہ ہمیں سپیشل ویگن کروانا پڑے گی، لیکن ہر ڈرائیور اسپیشل ہمارے لیے گلگت جانے کے بہت زیادہ پیسے مانگتاتھا۔ ایک مقامی نوجوان نے ہماری پریشانی دیکھ کر مشورہ دیا ، ”سپیشل ویگن کا پیسا مت دو۔ تھوڑا انتظار کرو ویگن آجائے گا۔“
اس کا کہنا ٹھیک تھا کچھ ہی دیر میں ایک سوزوکی پک اپ آ گئی جو گلگت جا رہی تھی۔ دو تین سواریاں اندر بیٹھی تھیں باقی جگہ ہم نے بھر دی۔
میں اندر بیٹھنے کے بجائے باہر پائے دان پر کھڑا ہو گیا۔ گاڑ ی چلی تو شام ہو رہی تھی۔ آسمان پر مغرب میں ڈ و بتے سورج کے رنگوںمیں ابتدائی تاریخوں کاچاند تھا جس کا نقرئی رنگ ابھی سرمئی پڑتے آسمان کے رنگ سے زیادہ الگ نہیں تھا۔ ایسے میں فرصت، آزادی اوردنیا اپنی ہونے کا خیال دل کو مسرور کرتا تھا۔ یہ خوشی سے معمور وقت تھا۔ویگن گلگت کی طرف بھاگ رہی تھی اورویگن کے پیچھے جھولتے ہوئے میرے بدن سے شام کی ہوا لپٹتی تھی اور میرے بالوں کو اڑا تی تھی۔ گاڑی پُل پر سے گزری تو (اب اس پُل سے گاڑیوں کی آمد ورفت پر پابندی لگادی گئی ہے) تو میں اونچی آواز میں”کھویا کھویا چاند، کھلا آسمان۔“ گانے لگا۔ ویگن میں بیٹھے دوسرے مسافر میری اس حرکت پر مسکرانے لگے۔ کچھ ہی دیر میں ہم پارک ہو ٹل کے باہر سٹاپ پر تھے۔ پاس ہی ایک چھوٹی سی دکان پر ”نسوار انٹر نیشنل“ کا بورڈ لگا ہوا تھا( وہی think global والی پالیسی)۔
سٹی پارک :
چوک میں چہل پہل تھی۔ گنڈیریاں، گرما، آلو چھولے، گول گپے، نمکو وغیرہ بیچنے والے اپنی ریڑھیاں لیے سٹی پارک کے باہر کھڑے تھے۔ لوگ باغ میں آ جا رہے تھے۔ گیٹ کے قریب آرمی کا ایک ٹرک پارک تھا جس کے پاس رینجرز کے جوان ڈیوٹی کرر ہے تھے۔ باغ کے اندر باہر سے کہیں زیادہ رونق تھی۔
روشوں پر گلاب کے بے شمار پھول تھے۔ مغرب میں ڈو بتے سورج کی روپہلی روشنی میں مشرقی پہا ڑوں پر جمی برف سونے کی طرح چمکتی تھی۔ جوگنگ ٹریکس پر لوگ جوگنگ اور تیز قدمی کر رہے تھے۔ پارک کے شروع میںباسکٹ بال کا کورٹ تھا جہاں لڑکے کھیل رہے تھے اور کچھ بزرگ حا شیے پر بیٹھے انہیں دیکھ رہے تھے۔ فا صلے فاصلے پر بنچ نصب تھے جو سب کے سب ہنستے مسکراتے لوگوںسے بھرے تھے۔ایک حصے میں کرکٹ کی پِچ اور ہاکی کا میدان بھی تھا لیکن سب سے زیادہ رونق اسکیٹنگ رِنک میں تھی۔ بچے اور نو جوان پہیوں والے جو تے پہنے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔مرکزی فوارے سے پرے چھوٹے بچوں کےلئے مخصوص حصہ تھا۔ جس میں بہت سے دھاتی پائپوں سے بنے ڈھانچے نصب تھے جن سے جسمانی اور ذہنی کھیل کھیلے جا سکتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے عید کا دن ہے ۔ ہر چہرہ خوش اور مسکراتا ہوا۔ شام گہری ہوئی تو پورے پارک میں برقی قمقمے روشن ہو گئے اور رونق میں بھی اضا فہ ہو گیا۔
میرے ساتھی وقفے وقفے سے ”شوکت“ کا نعرہ بلند کرتے تو میں اور طاہر بھی احتیا طاً دائیں بائیں نظر ڈال لیتے۔ میری حالت اس مولوی جیسی تھی جو تبلیغی جماعت کے نوجوانوں سے بھری بس میں سفر کر رہا تھا۔ ان کے امیر نے نصیحت کی کہ”دوران ِ سفراپنی نگاہ نیچی رکھیں۔ اگر غلطی سے کسی نا محرم پر نظر پڑ بھی جائے تو لا حول پڑھ لیں۔“
سب نظریں جھکائے سفر کر رہے تھے کہ ایک مولوی نے اونچی آواز میں کہا۔”لا حول ولا قوة۔“
یہ سنتے ہی کئی آوازیں آئیں ”کدھر ہے؟ کدھر ہے؟“
تو” شوکت “ کا نعرہ سنتے ہی میں بھی ”کدھر ہے ؟ کدھر ہے؟“ کے انداز میں چاروں طرف دیکھنے لگتا تھا۔
پارک کے پرلے سرے پر واقع کینٹین سے بوتلیں اور چپس لے کر ہم گھاس پر آ بیٹھے اور بہت دیر تک آ سودگی سے ہلکی پھلکی، ادھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے۔ آسمان پر چاند زیادہ روشن ہو چلا تھا۔ میں دبے سروں میںہیمنت کمار کا گیت ”یہ رات، یہ چاندنی پھر کہاں۔“ گنگنانے لگا۔۔ہر طرف قہقہوں کی خوش بو تھی، مسکراہٹوں کے رنگ تھے اور خوشی کی روشنی تھی۔
میرے ساتھی کچھ دیر گھوم کر ہوٹل لو ٹ گئے تھے۔ میں اور طاہر کچھ لمحے وہاں مزید رکے رہے۔ فضا میں مغرب کی اذان گو نجی تو فیصلہ ہوا کہ نماز پڑھی جائے۔ میں نے ایک مقامی لڑکے سے مسجد کا راستہ پو چھا۔ اس نے مشرقی دیوار کی طرف اشارہ کر کے اس راستے کی نشان دہی کی جو پارک کی ٹوٹی ہوئی دیوار سے ہو کر اندرون ِ شہر کو جاتا تھا۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔