قومیں فیصلوں سے پہچانی جاتی ہیں!
دیر تک اور دور تک سوچنا ہی فیصلے کا حسن ہوتا ہے مگر بعض مرتبہ یہی خوبی صاحب فیصلہ کا عیب بن جایا کرتی ہے۔ فیصلے کی گھڑی کا التوا لوگوں کوانتظار کی سولی پر چڑھاتا ہے تو یہی التوا بہت کچھ ٹوٹنے سے بچا بھی لیتا ہے۔ فیصلوں میں وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، بعض ایک فیصلوں کے لئے اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ کسی کو مشورے کے لئے بلایا جاسکے اور بعض اوقات بھانت بھانت کے مشورے فیصلے کو کمزور کردیا کرتے ہیں۔ ٹرین پٹڑی پر کھڑی ہو تو فیصلہ کرنے میں زیادہ وقت نہیں لینا چاہئے جبکہ گھپ اندھیروں میں گھرو ں سے نکلنے والے دن چڑھنے پر اپنے فیصلے کی صداقت کو ناپنے کے قابل ہوتے ہیں۔ چند لمحوں کی ساعت میں کیے گئے فیصلوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ حاکم باپ کے بیٹے بھکاری بن کرگلیوں میں بھیک مانگتے پائے جاتے ہیں۔
یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جن کے حق میں فیصلے نہ ہوں وہ واقعی مجرم بھی ہوں۔ آسمانی فیصلے الگ اور عدالتی فیصلے الگ ہوتے ہیں، ایک ٹانگ اٹھا کر کھڑے ہونا تدبیر اور دونوں نہ اٹھاپانا تقدیرکہلاتا ہے۔ جن فیصلوں پر سوچ بچار نہ ہوئی ہو انہیں یک جنبش قلم سے مسترد کردیا جاتا ہے۔ مضمحل ارادے کمزور فیصلوں پر منتج ہوا کرتے ہیں اور بعض اوقات تو فیصلہ چھوڑیئے مدعی سے مدعا بھی ادا نہیں ہوپاتا۔ فیصلے کی گھڑی تک یاران خوش ادا کو تمسخرروا ہوتا ہے اور فیصلہ ہو جائے تو انسان کو اپنے اختیار کی کم مائیگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ چھین لینے کی طاقت ہی دست باکمال کا فیصلہ ہواکرتی ہے جبکہ سوال کی لجاجت مدعی کے مدعا کو رسوا کئے رکھتی ہے۔ انسانی عقل ثبوت کی محتاجی سے عبارت ہوتی ہے جبکہ معجزے ماورائے عقل ہوتے ہیں، جنھیں فیصلے کی اجازت نہ دی جائے انہیں منزل کی بشارت دے دی جاتی ہے۔ صاحب فیصلہ مسکرا کر بددعا بھی دے تولے لینی چاہئے وگرنہ عمر بھر کی وفاؤں کا صلہ بے وفائی بن جایا کرتا ہے۔ انا پرستوں کے فیصلے ہواؤں کا رخ بدل دیا کرتے ہیں، وہ اپنے مخالف کو بدلنے پر مجبور کردیا کرتے ہیں جبکہ معتدل مزاج لوگ مل کر بھی حقیقت کا پتہ نہیں دیتے اور اپنے مخالف کو فیصلے کی طاقت سے محروم کئے رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ رقص جنوں کی شرط پر فیصلے نہیں لیتے بلکہ اپنی تاب کو آزمانے کے قائل ہوتے ہیں۔ کبھی کسی کا سچ عدالت کو باغیانہ لگتا ہے تو کبھی کسی کے جھوٹ سے بھی خیر کی راہ نکال لی جاتی ہے مگر اہمیت فیصلے کی ہوتی ہے، خواہ کسی کے بھی حق میں ہوا ہو۔فیصلے بدلنے والے ساری عمر اپنے ہی کیے گئے فیصلوں پر روتے ہیں۔ بعض مرتبہ عادل کی بے منصفی ہی فیصلے کو ممکن بنایا کرتی ہے کہ قاتل کو قاتل اس لئے بھی ثابت کردیا جاتا ہے تاکہ بے جا قتل کی روش کا خاتمہ ہو۔ دعاؤ ں سے لئے جانے والے فیصلے بددعاؤں کی بھینٹ بھی چڑھ جایا کرتے ہیں۔ کسی ایک عمل کے دوران لیا گیا فیصلہ ہی اصل نقصان کا سبب بن جایا کرتا ہے اور فیصلے کی سمجھ فیصلہ لینے کے بعد آتی ہے۔
شاہ کو مات ہونے تک شطرنج کی بازی لگتی ہے وگرنہ ہار تو پہلی چال سے ہوچکی ہوتی ہے۔منظر نامے کو سمجھنا ہی فیصلے کا اصل ہوتا ہے تبھی تو قاضی مخالفین کے دلائل کی رسی تھام کر پہاڑ کی چوٹی تک پہنچتا ہے تاکہ اس کے سامنے شہر کا منظر عیاں ہواور وہ کسی نتیجے تک پہنچ سکے۔ تاہم شام ڈھلنے سے پہلے فیصلہ لے کر ہی گھر جانے کا خبط انسان کو بدحواس کردیتا ہے، صبر کا دامن تھام کر زنجیر عدل ہلانی چاہئے کہ شاہوں کا مزاج صبح کچھ، شام کچھ ہوتا ہے۔ وہ انصاف کے سارے تقاضے پورے ہونے کے باوجود جس کا چاہیں فیصلہ محفوظ رکھ لیتے ہیں، خواہ کسی کا سر دہلیز کی زینت ہی کیوں نہ بنا ہوا ہو۔ موت بھی قاتل کا رخ دیکھ کر بسمل کی تڑپ کا فیصلہ کرتی ہے اوردل کی دھڑکن طے کرتی ہے کہ اندر سے درد اٹھا ہے کہ کوئی نغمہ بلند ہوا ہے۔
فیصلہ توفیصلہ ہوتا ہے، وصال کا ہو یا ہجر کا۔ یہ تو فیصلہ لینے والے پر منحصر ہے کہ کاہے کا انتخاب کرتا ہے۔ البتہ بعض ایک مرتبہ پانی سر سے گزرجائے تو بھی فیصلہ نہیں ہوپاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بہت سوچ بچار کے بعد ایک راستہ چننے کا فیصلہ ہوتا ہے اور بیچ رستے میں احساس ہوتا ہے کہ غلط رستہ چن لیا تو انسان دوسرے رستے پر چل پڑتا ہے، ایسے راہی کی منزل آدھا رستہ ہوتی ہے۔ وہ زندگی بھر پورا راستہ طے نہیں کر پاتے ہیں اور کبھی حالات کو تو کبھی قسمت کو کوستے پائے جاتے ہیں جبکہ عشق و سرمستی سے سرشار لوگ دوسرا فیصلہ کبھی کرتے ہی نہیں ہیں، وہ باتوں کے نہیں گھاتوں کے قائل ہوتے ہیں۔ البتہ مجبوریوں کے فیصلے بہت بڑے صبر کے طالب ہوتے ہیں اورلوگ ایسے فیصلے بھی کرتے ہیں کہ جن میں خفا ہوکے یا خفا کرکے اٹھنا ہی پڑتا ہے۔
بعض فیصلے قوموں کی شکلیں بدل دیاکرتے ہیں اور بعض فیصلے تقدیربدل دیتے ہیں۔ قوم جب فیصلے کا انتظار کرتی ہے تو دراصل وہ اپنے مستقبل کا تعین کرتی ہے۔ تعصبات سے لبریز نیتیں فیصلوں پراپنے فیصلے صادر کرتی ہیں جس کا خمیازہ نیک نیت والوں کو بھی بھگتنا پڑتاہے۔ اجتماعی فیصلے انفرادی فیصلوں سے بالاترہوتے ہیں، کبھی کسی ایک فرد کافیصلہ پورے کنبے کی تقدیرسے جڑا ہوتاہے تو کبھی ایک قاضی کا فیصلہ پوری قوم کی تقدیر سے جڑا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں درست فیصلے کرنے کی توفیق عطاکرے، ایسے فیصلے کہ جن پر ہمیں ندامت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور جن کو بدلنے کی ضرورت محسوس نہ ہوکیونکہ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں کنبے اور قومیں اپنے فیصلوں سے پہچانے جاتے ہیں!