ہم ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں چلنے لگے جن میں متوسط طبقے کے گھر تھے۔۔۔۔

ہم ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں چلنے لگے جن میں متوسط طبقے کے گھر تھے۔۔۔۔
ہم ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں چلنے لگے جن میں متوسط طبقے کے گھر تھے۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : عمران الحق چوہان 
قسط :42
ڈاکٹر اقبال کے والد کا چہلم:
دیوار کے پار کھیتوں کے ساتھ ساتھ ایک پگ ڈنڈی آبادی کی طرف جاتی تھی۔ وہاں سے باہر آکر میں نے ایک اور مقامی نوجوان سے دوبارہ راہ نمائی چاہی تو وہ راہ دکھانے ساتھ ہو لیا۔ ایک پیڑ کے نیچے3 آدمی سر جوڑے بیٹھے تھے۔ قریب سے گزرنے پر چرس کی بوجھل اور تیکھی بُو ہوا کے ساتھ میری ناک میں آئی۔ ہم ٹیڑھی میڑھی تنگ گلیوں میں چلنے لگے جن میں متوسط طبقے کے گھر تھے۔ گلیوں میں مکمل خا مو شی تھی اور مین روڈ کا شور یہاں نہیں پہنچتا تھا۔ ایک جگہ دو تین لڑکیاں دکھائی دیں تو اس لڑکے نے ہمیں روک کر شاید شِناءزبان میں ان سے کچھ کہا جس پر وہ فوراً گھر کے اندر چلی گئیں پھر اس نے ہمیں آ گے بڑ ھنے کا اشارہ کیا۔ وہ شاید کوئی خدائی فوج دار تھا یا سماجی خدمت گار ۔ راہ میں جو بھی عورت یا لڑکی نظر آتی وہ ٹریفک پولیس کے سپاہی کی طرح ہاتھ اٹھا کر ہمیں رکنے کا اشارہ دیتا ہم دونوں فوراً اپنے قدموں پر ساکت ہو جاتے ،وہ اپنی زبان میں لڑکی کواند ر جانے کو کہتا اور راستہ ”کلئیر“ ہو نے پر ہمیں آگے بڑھنے کا کاشن دیتا اور ہم اس کے پیچھے فو جی رنگروٹوں کی طرح قطار بنائے مسجد کی طرف چل پڑتے۔ 
ایک چھو ٹی سی مسجد کے دروازے پر پہنچا کر وہ نوجوان آ گے بڑھ گیا اور ہم دونوں مسجد میں داخل ہو گئے۔ وضو کر تے کرتے پہلی رکعت نکل گئی ۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد جب ہم دونوں نماز پوری کرنے کےلئے کھڑے ہوئے تو ایک آ دمی نے اٹھ کر اعلان کیا : 
 ” حضرات ! محترم ڈاکٹر اقبال صا حب کے والد ِ مرحوم کے چہلم کے مو قع پر ان کی روح کے ایصال ِ ثواب کےلئے ڈا کٹر صاحب نے کھانے کا انتظام کیا ہے۔تمام نمازیوںسے گزارش ہے کہ نماز سے فارغ ہو کر ڈا کٹر صا حب کے گھر تشریف لے چلیں۔“
اس اعلان میں 2 باتیں ایسی تھیں جن سے مجھ گناہ گار کی توجہ نماز کی جانب کچھ کم ہو گئی۔ پہلی بات تو کھا نے کا ذکر تھا۔ دوسرے یہ صلائے عام تھی یعنی دعوت ”تمام“ نمازیوں کو دی گئی تھی جن میں حساب اور اصول کی رُو سے یقیناً ہم 2مسافر بھی شا مل تھے۔ لوگ دعا کے بعد مسجد سے نکلنے لگے تو مجھے سجدے میں خیال آیا کہ ہمیں محترم ڈا کٹر اقبال صا حب کے گھر کا راستہ نہیں آتا۔ اگر ہم نہ پہنچ سکے تو نا صرف ڈا کٹر صا حب کے والد ِ مر حوم کے ایصال ِ ثواب میں کمی رہے گی بلکہ ہم بھی اچھے کھانے سے محروم رہ جائیں گے چناں چہ میں نے لو گوں کو مسجد سے نکلتے دیکھ کر جلدی جلدی نماز ختم کی اور طا ہر کو بھی کہنی مار کر تیزی کا اشارہ کیا۔ جس نے اسے سمجھتے ہوئے فوراً سلام پھیر دیا۔
”سنتیں تو پڑھ لینے دیں۔“ طاہر نے میرے مشورے پر اعتراض کیا۔
”بزرگ کہتے ہیں ’ عبادت کی قضا ہے دعوت کی قضا نہیں‘۔“ میں نے اسے سمجھایا۔
”اشفاق صا حب نے’ ’دعوت‘ ‘نہیں’ ’ خدمت“کہا تھا۔“ اس نے حجت کی۔
” اُس وقت خدمت کا وقت تھا اب دعوت کا وقت ہے ۔ دوسرے اگر کوئی ہماری ”خدمت‘ ‘کر کے ثواب کما سکتا ہے تو اس کی دعوت کھانا بھی خدمت ہی ہے۔“ میں نے نکتہ آفرینی کی جس نے طاہر کو لاجواب کر دیا۔
ڈا کٹر اقبال اور ان کے والد کے اجتماعی ثواب کی خاطر ہم نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے لیے دعا کا معا ملہ مو¿خر کردیا اور جلدی جلدی جرابیں پہن کر جوگرز پا وں میں پھنسائے اور بھیڑ کے پیچھے تنگ گلیوں کے پیچ و خم میں چلنے لگے۔میں نے اپنے ساتھ چلنے والے شخص سے تصدیق کرلی کہ وہ چہلم پر ہی جارہا ہے ، مبادا وہ اپنے گھر جا رہا ہو اور ہم نا سمجھی میںاس کی پیروی کر کے گم راہ ہوجائیں ۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )۔