لالو کھیت کے ساتھ والوں نے اپنے محلے کانام ” گولیمار “ رکھ لیا ۔ پتہ نہیں یہ کوئی دھمکی تھی ، حکم تھا ،یا کسی نے پیچھا چھڑانے کے لیے کہا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:70
ایسا ہی ایک اور عجیب و غریب سا نام لالو کھیت کے ساتھ والوں نے اپنے محلے کا رکھ چھوڑا تھا۔ وہ بڑا ہی دہشت ناک سا نام تھا، جس کو سن کر ہنسی سے زیادہ خوف آتا تھا ۔ اس علاقے کو سب ” گولیمار “ کہتے تھے ۔ اب پتہ نہیں یہ کوئی دھمکی تھی ، حکم تھا ،یا پیچھا چھڑانے کے لیے کسی کراچی والے نے کہا ہوگا کہ یار”گولی مار“ اسے ۔
اِس نام کی تاریخ کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن سنا ہے کہ گئے وقتوں میں شہر سے باہر لیاری ندی کنارے انگریز فوجیوں نے اپنا نشانہ سیدھا کرنے کے لیے فائرنگ رینج بنائے ہوئے تھے اوروہ سارا سارا دن ٹولیوںکی شکل میں یہاں آ کر گولیاںداغاکرتے تھے ۔ اس لیے وہاں کے مقامی سندھی باشندوںنے اس علاقے کو گولیمار کہنا شروع کر دیا ۔تین ہٹی اور لالو کھیت کے بعد یہی ایک ایسا مقام تھا جہاں آباد کاری شروع ہوئی اور تقریباً ہر رنگ اور نسل کے کم آمدنی والے لوگ یہاں بس گئے تھے۔ پھر بھی یہاں مہاجروں کی کثرت تھی۔
کافی عرصے بعد تک بھی یہ علاقہ گولیمار ہی کہلاتا رہا ۔ جب لالو کھیت کو لیاقت آباد بنایا گیا تو گولیمار والوں کو بھی ہوش آیا اور انہوں نے اپنے اس علاقے کا پیدائشی نام بدل کر اسے قدرے رومانوی نام یعنی گل بہار دے دیا ۔ بد قسمت تھا یہ محلہ کہ نام کی تبدیلی بھی اس کی تقدیر نہ بدل سکی اور یہ آج بھی کراچی کے پس ماندہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔
ناظم آباد
ابھی سفر ختم نہیں ہوا ہے ۔ لیاقت آباد سے نکلتے ہی ناظم آباد شروع ہو جاتا ہے۔یہ اس وقت متوسط اورپڑھے لکھے طبقے کا پسندیدہ اور ترجیحی رہائشی علاقہ تھا، پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور بعد ازاں دوسرے ہی وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے نام پرآباد کیا گیا تھا۔
یہ کراچی کے مرکز سے کوئی دس بارہ میل دور ہے، جو اس زمانے کے ذرائع آمدو رفت کے مطابق اچھا خاصا فاصلہ تھا ۔سن 50 کے اوائل میں حکومت پاکستان نے سرکاری ملازمین اور جگہ جگہ بکھری ہوئی کچی آبادیوں کو یکجا کرکے یہاں بسانے کا منصوبہ بنایا اور مقامی زمین داروں سے اراضی خرید کر اس پرآبادکاری کا آغاز کیا ۔ ناظم آباد میں بہت ہی معمولی قیمت پر لوگوں کو پلاٹ الاٹ کیے گئے۔ زیادہ تر پلاٹ 220 گز کے تھے، تاہم مرکزی سڑک کے ساتھ 600 گز تک کے بڑے پلاٹ بھی تھے ۔جن لوگوں کے مالی حالات کچھ بہتر تھے انہوں نے دو پلاٹ ساتھ ساتھ لے کر اور ان کو یکجا کرکے بڑے بڑے گھر تعمیر کر لیے تھے۔جو اس زمانے میں امارت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔
قدرتی طور پر اس علاقے میں رہائش اختیار کرنے والوں کی کچھ اس طرح تنظیم ہوگئی کہ انتہائی پڑھے لکھے مہاجروں نے اسے اپنا مسکن بنایا ۔ ان میں علی گڑھ اور عثمانیہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کے علاوہ دہلی ،یو پی، سی پی اور حیدرآباد دکن سے آئے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شامل تھے۔ جن کا تعلق شعروادب، درس و تدریس، بینکنگ، صحافت، فلم اور ٹیلی وژن سے تھا۔ وہاں رہنے والے مشہور لوگوں میں پاکستان کے نامور مصور صادقین ، اقبال مہدی ، جسٹس لاری ، اداکار شکیل ، اداکار ہ سنگیتا ، فلم پروڈیوسر سعید رضوی، ابن انشا ، مختار زمان، عالیہ امام، مجنوں گورکھ پوری ،مجاہد بریلوی، نصراللہ خان ، آل رضا اور ہاشم رضا شامل تھے۔ غرض نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان کے بہترین دماغ ایک جگہ جمع ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں جب کوئی کہتا تھا کہ میرا تعلق ناظم آباد سے ہے تو فوراً ہی کسی اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کا خیال ذہن میں آتا اور وہ فوری تعظیم کے قابل سمجھا جاتا تھا ۔ وہاں کے مکین بھی ناظم آباد سے اپنی وابستگی پر بہت فخر محسوس کرتے تھے اور کثرت سے اس کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے ۔
تب تو ایک ہی ناظم آباد ہوا کرتا تھا۔پھر جوں جوں آبادی بڑھتی گئی، اس کے نئے علاقوں کو نمبروں کے حوالے سے پہچانا جانے لگا اور یوں ناظم آباد نمبر دو یا تین وغیرہ وجود میں آگئے ۔میں نے تو ایک نمبر ہی دیکھا تھا۔ پھر جو ہوا میرے بعد ہی ہوا ۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )