انٹری ٹیسٹ کا خاتمہ اور داخلہ پالیسی؟

گزشتہ کئی برسوں سے انٹری ٹیسٹ کے نام پر طلبہ اور والدین کی جیبوں سے اربوں روپے ہتھیائے جا چکے ہیں اور بڑے منظم انداز سے طلبہ کے معیار کو جانچنے پرکھنے کے نام پر عوام الناس کی جیبوں پر ڈاکے ڈالنے کا یہ عمل جاری ہے۔ پنجاب بھر میں سرکاری سطح پر کوئی ایک ادارہ بھی نہیں، جہاں کسی شعبہ ہائے زندگی کے انٹری ٹیسٹ کی تیاری کا اہتمام حکومتِ وقت نے کیا ہو لیکن طلبہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ انجینئرنگ اور میڈیکل سمیت متعدد شعبہ جات میں داخلہ لینے کے لئے انٹری ٹیسٹ کے پُل صراط کو لازمی طور پر عبور کریں۔ اب تو باقاعدہ پنجاب ہائیر ایجوکیشن تمام شعبہ جات میں داخلے کے لئے انٹری ٹیسٹ کا نظام لاگو کرنے کے لئے متحرک ہے۔ سرکاری کالجز، سرکاری یونیورسٹیاں بذاتِ خود کسی انٹری ٹیسٹ کی تیاری کا اہتمام تو کرتی نہیں لیکن طلبہ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ انٹری ٹیسٹ میں دیئے گئے معروضی سوالات کا جو اب ایک ’’داؤ‘‘ کی صورت میں دے کر اپنے مستقبل کا تعین کریں۔
انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے لئے پرائیویٹ سیکٹر میں محض چارنام نہاد ادارے موجود ہیں، جن کی اوسط فیس فی طالب علم تقریباً 35 ہزار روپے بنتی ہے اس تناسب سے مختلف کیٹگریز میں تقریباً 3 لاکھ کے لگ بھگ طلبہ وطالبات پنجاب بھر سے انٹری ٹیسٹ کے امتحان کی تیاری کرتے ہیں گویا10 ارب 50 کروڑ کی خطیر رقم صرف چار اکیڈیمیز 40 سے 50 دِنوں کے انٹری ٹیسٹ تیاری کی مد میں وصول کرتی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی نام نہاد اکیڈیمیز ہر سال مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے دس ارب روپے طلبہ و طالبات کے والدین سے وصول کرلیتی ہیں یہ تو رہا ایک پہلو، تصویر کا دوسرا رُخ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والی یونیورسٹیز اور کالجز اپنے اپنے انٹری ٹیسٹ کی مد میں کروڑوں روپے تو وصول کرتے ہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ طلبہ کے ایڈمیشن کے شیڈول سرکاری یونیورسٹیز، کالجز کی میرٹ لِسٹ سے پہلے جاری کرکے اربوں روپے داخلہ فیس کی مد میں یہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہضم کرجاتے ہیں، کیونکہ جیسے ہی سرکاری یونیورسٹیز، کالجز کی میرٹ لِسٹ سامنے آتی ہے تو طلبہ کی اکثریت سرکاری اداروں کو تعلیم کی تکمیل کے لئے ضروری گردانتے ہوئے وہاں بھی فیس ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ گویا پرائیویٹ سیکٹر کے کالج اور یونیورسٹیاں تعلیمی خدمات کم سرانجام دے رہے ہیں داخلے کے نام پر والدین سے اربوں روپے کی رقم جمع کرلیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو طلبہ و طالبات کسی کالج یا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل نہیں کرتے انہیں ان کی جمع کروائی گئی مکمل فیس واپس ملنی چاہئے۔ فیس کی واپسی کالجز اور یونیورسٹی کے لئے بھی تکلیف دہ ہے، لہٰذا حکومتِ وقت کو چاہیے کہ تمام سرکاری کالجز یونیورسٹی میں داخلوں کی تکمیل کے کم از کم دس پندرہ دن کے بعد پرائیویٹ سیکٹر کے کالجز اور یونیورسٹیز کو داخلے کرنے کا پابند بنایا جائے تاکہ مجبوراً جو والدین نجی اداروں کو لاکھوں روپے انفرادی طور پر جمع کرواتے ہیں وہ رقوم ضائع ہونے سے بچائی جاسکیں۔
مہنگائی کے دور میں متوسط آمدنی رکھنے والے اور غریب والدین تو سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز کی فیس بڑی مشکل سے ادا کرتے ہیں ایسے حالات میں نجی اداروں کو بہ امر مجبوری لاکھوں روپے فیس کی مد میں ادا کرنے کی وجہ سے مالی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی مالی پریشانیاں جہاں بعض طالب علموں کو ذہنی تناؤ کا شکار کرتی ہیں وہیں انہیں ناجائز ذرائع سے روپیہ حاصل کی طرف مائل کرتے ہیں اور مجبوراً کچھ پڑھے لکھے نوجوان سٹریٹ کرائمز کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ جرائم کی روک تھام اور تدارک کے لئے حکومتِ وقت کو عوام پر اضافی مالی بوجھ کے اسباب کو ختم کرنا ہو گا۔ فیڈرل بورڈ اسلام آباد سمیت پنجاب بھر کے تمام بورڈز کو بھی چاہئے کہ وہ امتحانی پرچوں کی چیکنگ صرف مستند، تجربہ کار اور ماہر اساتذہ سے ہی کروائیں۔ گھوسٹ اور نان ٹیچنگ سٹاف سے پرچوں کی چیکنگ نہ کروائی جائے۔ اگر نان ٹیچنگ سٹاف پرچوں کی مارکنگ پر براجمان رہیں گے تو اس عمل سے طلبہ سے ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ عمل میں نہیں لایا جاسکتا۔ معیاری اور پروفیشنل اساتذہ سے پرچوں کی چیکنگ سے ری چیکنگ کے بارے میں لاکھوں شکایات کا فوری خاتمہ بھی عمل میں آئے گا۔ اب اربابِ اختیار کو طے کرنا ہے کہ ’’مکھی پر مکھی مارنے‘‘ کی پالیسی کو جاری رکھنا ہے یا عملاً تعلیم کے شعبہ میں انقلاب بپا کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہئے کہ وہ انٹری ٹیسٹ کا سلسلہ ختم کر کے پرائیویٹ سیکٹر کے کالجز اور یونیورسٹیز کے داخلہ شیڈول کو ازسرِ نو مرتب کریں تاکہ والدین پر تعلیمی اخراجات کا بوجھ کم ہو سکے۔