ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے!

ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے!
 ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کل کے میرے کالم کا موضوع ’’افغانستان اور پاکستان‘‘ تھا۔ ملک کے اندرونی حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں، سارا میڈیا ان پر گوہر افشانیاں اور خوش نویسیاں کرتا رہتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ ہیں جو بیرونی حالات کو مدنظر رکھ کر کچھ کہتے یا لکھتے ہیں۔ میں نے لکھا تھا کہ پاکستانی افواج کو چومکھی لڑنی پڑ رہی ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہے۔ تمام بین الاقوامی فورسز (ماسوائے چین یا ایک آدھ دوسری قابلِ ذکر طاقت کے) پاک افواج کو بے اثر دیکھنا چاہتی ہیں۔ ان کے ایجنڈے کی راہ میں صرف پاک فوج (اور اب پاک عدلیہ) حائل ہے۔ دشمن مغربی طاقتوں کا یہ ایجنڈا آپ سے ڈھکا چھپا نہیں۔ جوں جوں دن گزر رہے ہیں اس ایجنڈے کے خدوخال مزید ابھر اور نکھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس ایجنڈے کی تکمیل میں وہ اندرونی فورسز بھی بالواسطہ شامل ہیں جن کو براہِ راست اس کی مخالفت کرنی چاہیے تھی۔ پاکستانی فوج اکیلی اس محاذ پر نبردآزما ہے۔۔۔ دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک!


امریکہ اب 16،17 برس بعد نئی تیاریوں کے ساتھ میدان میں اتر رہا ہے۔میں نے کل کے کالم میں بھی لکھا تھا اور قارئین کو بھی سب معلوم ہے کہ افغانستان میں امریکی کولیشن کو وہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی جس کی کوشش و کاوش وہ پچھلے 16برس سے کر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ اب افغان وار کے تعطل پر نالاں ہیں اور اپنے ٹاپ ملٹری کمانڈروں کو کوس رہے ہیں کہ ان کی افغان وار سٹرٹیجی فتح یاب نہیں ہو رہی۔ اس کی ذمہ داری انہوں نے امریکی فوج کے افغانستان میں موجودہ کمانڈر، جنرل نکولسن پر ڈال دی ہے اور وزیر دفاع کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ نکولسن کی جگہ کوئی نیا جنرل کابل بھیجیں جو اس طویل جنگ کو امریکہ کے حق میں منطقی انجام تک پہنچائے۔ اپنے صدر کا یہ تبصرہ سن کر ٹاپ براس کو فکر پڑ گئی ہے کہ اس کی شہرت داؤ پر لگ رہی ہے اس لئے وہ اپنا امیج بچانے کے لئے سرجوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ویسے تو وزیر دفاع کو اس سلسلے میں پیش پیش ہونا چاہیے تھا لیکن انہوں نے یہ ٹاسک اب نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کو دے دیا ہے۔۔۔ وزیر دفاع، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور قومی سلامتی کے مشیر تینوں کا تعلق فوج سے ہے۔ جنرل میٹس (Mattis)، جنرل ڈن فورڈ (Dunford) اور جنرل میک ماسٹر (Mc Master) تینوں فوجی ہیں۔ اور جنرل میک ماسٹر (جو قومی سلامتی کے مشیر ہیں) انہوں نے اپنے صدر کے مخالف بیان دے کر اس موضوع کی سنگینی کو مزید گہرا کر دیا ہے۔جنرل میک ماسٹر سے پوچھا گیا تھا کہ ٹرمپ جس جنرل نکولسن کو سیک کرنا چاہتے ہیں آپ کی رائے ان کے بارے میں کیا ہے تو میک ماسٹر نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر کہا: ’’میں اس موضوع پر صدر ٹرمپ سے اتفاق نہیں کرتا۔۔۔ میں جنرل کو کئی برسوں سے جانتا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی ملٹری مشن کے لئے ان سے بہتر اور باصلاحیت کمانڈر کو ئی دوسرا ہو سکتا ہے!‘‘

البتہ جس بات کی پاکستان کو فکر کرنی چاہیے وہ افغانستان میں امریکہ کی نئی حکمت عملی ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا (آور آج بھی ایک حد تک ہو رہا ہے) کہ امریکی صدر چونکہ اپنی چاروں افواج (آرمی، ائر فورس، نیوی، میرین) کا کمانڈر انچیف بھی ہوتا ہے اس لئے جتنے آپریشن ان فورسزکی طرف سے سمندر پار ممالک میں بروئے کار لائے جاتے ہیں ان کی اجازت صدر امریکہ ہی دیتا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک،خطے یا علاقے میں کتنی فوج بھیجنی ہے۔ اس فوج کے ٹاپ کمانڈر کو نامزد کرنے کا حتمی فیصلہ بھی صدر کو کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں امریکی ٹاپ براس (یعنی ٹاپ ملٹری کمانڈرز) کو کسی بھی ملک میں امریکی فورسز کی ڈیپلائے منٹ، ان کی جنگی حکمت عملی اور ان کے حجم کو طے کرنے کے کلی اختیارات حاصل نہیں۔ اس لئے تینوں ٹاپ کے جرنیلوں نے ٹرمپ سے کلی اختیارات کا مطالبہ کیا جو صدر نے تسلیم کر لیا اور اب افغانستان میں ہر قسم کی کارروائی کرنے کا 100فیصد اختیار پینٹاگون کو حاصل ہو گیا ہے۔۔۔۔ اللہ اللہ خیر سلا!


افغانستان میں امریکی ’’ناکامی کا سہرا‘‘ جنرل میک ماسٹر نے پاکستانی فوج کی ’’کامیابی‘‘ کے سرباندھا ہے۔ جنرل کا خیال ہے کہ پاکستان امریکہ سے وہ تعاون نہیں کر رہا جو اس سے توقع تھی اور یہی وجہ ہے کہ امریکی افواج وہاں ’’فتح یاب‘‘ نہیں ہو رہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز ایک انٹرویو میں جن خیالات کا اظہار فرمایا اس کے بعض حصے قارئین کی از بس توجہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا:


’’صدر نے یہ بات صاف صاف کہی ہے کہ ہمیں اس ریجن (پاکستان و افغانستان) میں ان لوگوں کے رویئے میں تبدیلی دیکھنے کی ضرورت ہے جو محفوظ ٹھکانے فراہم کرتے ہیں۔ اور طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دوسروں کو امدادی اڈے (Support Bases) فراہم کرتے ہیں۔‘‘


اگر جنرل کے اس بیان میں کوئی ابہام رہ گیا تھا تو انہوں نے آگے چل کر اس کو بالکل واضح کر دیا ہے اور کہا ہے:


’’ہم بطور خاص پاکستان کے رویئے میں تبدیلی چاہتے ہیں اور ان گروپوں کی امداد میں پاکستان کی طرف سے کمی (Reduction) کے خواہش مند ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی صورتِ حال تنا قضات (Paradoxes) کا مجموعہ ہے(یعنی پاکستانی کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں) ایسا کرکے پاکستان بہت بڑے رسک مول لے رہا ہے۔پاکستان نے ان گروپوں کے مخالف سخت معرکے ضرور لڑے ہیں لیکن وہ یہ معرکے اپنی مرضی سے سلیکٹ کرتے رہے ہیں۔۔۔ اب صدر ٹرمپ امریکی فوج پر کوئی ایسی پابندیاں عائد کرنا نہیں چاہتے جو افغانستان کی جنگ میں ہماری لڑائیاں (Battles) جیتنے کی اہلیت کو کم یا متاثر کریں۔۔۔ اگر کوئی پابندیاں تھیں بھی تو اب انہوں نے وہ اٹھا لی ہیں۔ آپ کو ان پابندیوں کے اٹھائے جانے کے بعد کا سنریو بھی دیکھنے کو ملے گا!‘‘
جنرل میک ماسٹر کے انٹرویو کے درجِ بالا حصے اتنے واشگاف ہیں کہ ان کی تشریح و تعبیر کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب امریکی حکمت عملی کیا ہوگی اور افغانستان میں اس کے آئندہ تخصیصی خدوخال کیا ہوں گے۔ بطور پاکستانی ہمیں جن سوالوں سے سروکار ہو گا وہ یہ ہو سکتے ہیں:


1۔کیا افغانستان میں امریکی فوج کی موجودہ تعداد جو 8400ہے اور جس کو تربیتی سپاہ کا نام دیا گیا ہے وہ اسی لیول پر رہے گی یا اس میں اضافہ کیا جائے گا؟
2۔کیا ان ٹروپس کا رول (افغان نیشنل آرمی اور افغان نیشنل پولیس کے لئے) تربیتی ہوگا یا ان کو باقاعدہ میدان جنگ میں بھی فیلڈ کیا جاسکے گا؟
3۔کیا امریکی ٹروپس کو پاک افغان سرحد پار کر کے اپنے بوٹس پاکستانی سرزمین پر بھی لے جانے کی اجازت ہوگی یا پہلے کی طرح ڈرونوں اور دوسری فضائی کارروائیوں سے کام لیا جائے گا؟
4۔امریکی ٹروپس کو پاکستانی سرزمین پر کہاں تک اندر آنے کی اجازت ہوگی؟
5۔امریکی فوج کو کون کون سے جدید ملٹری ہتھیاروں کو استعمال کرنے کو کہا جائے گا؟
پاکستان کو بہت جلد ان سوالوں کے کاؤنٹر سوالوں کو مرتب کرنا پڑے گا جو تقریباً درج ذیل نوعیت کے ہو سکتے ہیں:
1۔اس نئے سنریو میں پاکستان کی اوورآل جنگی حکمت عملی کیا ہو گی؟
2۔اگر امریکی بوٹ سرزمینِ پاکستان پر آتے ہیں تو پاکستان کے پاس اس کے جواب میں جنگ کو صرف روائتی حصار تک رکھنے کی سپیس ہو گی یا معاملہ جوہری دہلیز تک چلا جائے گا؟
3۔ایسی صورت حال میں چین کا ردعمل کیا ہو گا؟
4۔کیا جنرل میک ماسٹر اور صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد پاکستان کو سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانا چاہیے یا نہیں؟
5۔کیا پاکستان آنے والی جنگ کے پیشِ نظر ملک میں ہنگامی صورتِ حال کا اعلان کر سکتا ہے؟۔۔۔ کرے گا بھی یا نہیں کرے گا؟

6۔کیا پاکستانی میڈیا کو اس موضوع پر ٹاک شوز منعقد کرنے کے لئے حکومتی سطح پر کسی اجازت کی ضرورت ہے ؟۔۔۔کیا موجودہ سیاسی صورت حال کی دھند میں قوم کو جس اتحاد اور یک جہتی کی ضرورت ہے وہ میسر ہوگی یا نہیں؟
امریکہ افغانستان میں اس نئی جنگی سٹرٹیجی کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کر چکا ہے۔ آپ کو یہ تومعلوم ہے کہ آپریشن خیبر چہارم، گزشتہ کئی روز سے جاری ہے۔ اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وادی ء راجگال کا 90 فیصد علاقہ عسکریت پسندوں سے کلیئر کروایا جا چکا ہے۔ آپ اس آپریشن کو حفظِ ماتقدم بھی شمارکر سکتے ہیں۔ہمیں پاک فوج کی دور اندیشی اور عسکری بصیرت کی داد دینی چاہیے کہ اس نے ہفتوں پہلے اس امریکی سٹرٹیجک شفٹ کا اندازہ کر لیا تھا اور یہ اسی آپریشن کا نتیجہ ہے کہ امریکی صدر کھل کر سامنے آئے ہیں اور افغانستان میں اپنی فوج کی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں، اپنے جنرل کو سیک کرنے کا سوچ رہے ہیں اور اپنی وزارت دفاع کو ’’ہرچہ باداباد‘‘ کا اذن دے رہے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ نے گزشتہ ہفتے سے افغانستان میں اپنے ٹروپس کے لئے عسکری سازوسامان بھجواناشروع کر دیا ہے۔
گزشتہ دو ماہ میں پاکستانی بندرگاہوں میں امریکی بحری جہازوں میں عسکری سازوسامان (پورٹ قاسم اور کراچی سے) افغانستان پہنچایا جا رہا ہے۔ اس میں سینکڑوں ملٹری گاڑیاں، تعمیرات میں استعمال ہونے والے ٹرک اور بھاری گاڑیوں کا بیڑا شامل ہے۔ ۔۔۔یہ سب کچھ کیوں بھیجا جا رہا ہے؟ کیا امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائیاں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا اپنی نئی ملٹری سٹرٹیجی کی تکمیل کی تیاریاں کر رہا ہے؟ کیا پینٹاگون کے کمانڈروں کی طرف سے اس حکم کا انتظار کیا جا رہا ہے جسے فائنل ایگزیکٹو آرڈر کہا جاتا ہے؟
۔۔۔پاکستان کو ان سوالوں پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ نئی کابینہ تشکیل دی جا چکی ہے۔ دفاع کا قلمدان کس کے پاس ہے اس کی خبر کسے نہیں؟ پاک افغان سرحد کے پار اور نزدیک کیا عسکری تیاریاں کی جا رہی ہیں، ان میں (امریکہ کے علاوہ)کون سے دوسرے ممالک حصہ لے رہے ہیں اور پاکستان آج کتنے خطرات میں گھر چکا ہے ان باتوں کی سُن گُن بھی کسی آئی ایس پی آر کو دینی چاہیے!
مقامِ صد افسوس ہے کہ دشمن کیا کر رہا ہے اور ہم کن کاموں میں لگے ہوئے ہیں، ریلیاں نکالی جا رہی ہیں اور زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ ایسا کرکے دشمن کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے؟ اگر ان جلسے جلوسوں میں اندرونی حالات بگڑتے ہیں تو لامحالہ سپریم کورٹ کو قیامِ امن و امان کے لئے فوج کو آواز دینی پڑے گی۔۔۔ یہی وہ ایام ہوں گے جن کی آس ہمارے دشمن ایک عرصے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ جو کچھ ملک کے اندر ہو رہا ہے ہم اس کو تو دیکھ رہے ہیں لیکن باہر جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس سے بے خبر ہیں:

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

مزید :

کالم -