سپریم کورٹ فیصلے کے بعد میں چکوال میں ن لیگ پہلے کی طرح منظم
چکوال(ڈسٹرکٹ رپورٹر) سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ضلع چکوال کی سیاست کے اندر پیدا ہونے والا مدوجزر بھی اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مجموعی طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے ضلع چکوال کی سیاست پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے مسلم لیگ ن پہلے کی طرح مضبوط چٹان کی طرح دکھائی دیتی ہے البتہ حلقہ این اے ساٹھ میں مسلم لیگ ن کی ہائی کمان کو ٹکٹ کی تقسیم کا بڑامرحلہ درپیش ہوگا۔ سردار غلام عباس بھی اپنے اس حلقے کے ایک لاکھ 9ہزار ووٹوں سمیت مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں اور چیئرمین ضلع کونسل چکوال کے الیکشن کے علاوہ PP23کے ضمنی الیکشن میں بھی اپنی افادیت پارٹی کی ہائی کمان سے منوا چکے ہیں۔ دوسری طرف رکن قومی اسمبلی میجر طاہر اقبال ہیں جنہوں نے پارٹی ہائی کمان کے فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے بھائی ملک نعیم اصغر کوگلدان کے نشان پر شیر کے مقابلے میں الیکشن لڑوایا اور شکست کھائی۔ پی پی23کے الیکشن میں بھی یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ان کا سردار غلام عباس کے ساتھ چلنا مشکل ہے۔ گزشتہ دنوں نواز شریف کے استقبال کیلئے بلائے جانے والے اجلاس میں سردار غلام عباس کیخلاف نعرہ بازی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آنے والے دنوں میں سردار غلام عباس اور میجر طاہر اقبال کے درمیان پِڑ لگنے والا ہے اور دونوں طر ف سے گروپ پرامید ہیں کہ ٹکٹ انہیں ہی ملے گا۔ بہرحال نئے حلقہ بندیوں کا بھی امکان کم دکھائی دیتا ہے جس کا مطلب ہے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں ہی رہیں گی۔ دوسری طرف پی ٹی آئی اس صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے کیونکہ سردار غلام عباس یا میجر طاہر اقبال میں سے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں ان کا مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر موجود رہنا ناممکن ہوگا۔ پی ٹی آئی کی حکمت عملی یہی ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک متاثر کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے 2018کے انتخابات کیلئے میدان میں اترا جائے اور ایسی صورتحال ہوئی تو پھر تمام چھ نشستوں پر مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہر نشست پر کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ این ساٹھ پر راجہ یاسر سرفراز، پی پی20پرعلی ناصر بھٹی، چوہدری تیمور علی اور شیخ وقار علی خان میں سے کوئی ایک میدان میں اترے گا، پی پی23میں ملک اختر شہباز کا ٹکٹ یقینی ہے، پیر شوکت حسین کرولی مسلسل سیاسی سکرین سے غائب ہیں، پی پی22پر فوزیہ بہرام یا ملک نثار قاسم ہو سکتے ہیں۔ پی پی23پر کرنل سلطان سرخرو اور ایم اے61پر منصور ٹمن یا پرویز الہٰی دونوں میں سے ایک سامنے آسکتا ہے، پیپلزپارٹی میں کوئی دم خم نہیں ، مذہبی ووٹ بھی تقسیم ہے اور تقسیم ہوکر ہی جائے گا البتہ تحریک خدام اہلسنت کے قاضی ظہور الحسین کا کردار نمایاں ہوگا اور ان کی حمایت کسی بھی جماعت کیلئے کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ بھی کافی متحرک ہے اور ان کی حمایت بھی بڑی اہم ہوگی۔ بہرحال صورتحال بڑی دلچسپ ہے۔