وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر36
گونگا دانا پہلوان تھا۔ وہ مدمقابل کو خائف کرنے کیلئے اس پر نفسیاتی حربے بھی استعمال کرتا تھا۔ اس نے حمیدے کو بھی طلسمی نظروں سے گھائل کرنا چاہا مگر حمیدے کے پایہ استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ دونوں شاہ زوروں نے ایک دوسرے کو تولنے کے بعد ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے۔اسی لمحہ گونگا کو اپنی حد سے بڑھی خوداعتمادی کی کمزور فصیل کا احساس ہو گیا۔ اس نے حمیدے کو ’’بوہل‘‘ تصور کیا تھا مگر یہاں تو نتیجہ ہی کچھ اور نکلنے والا تھا۔اسے فوراً احساس ہو گیا کہ حمیدا غلام رستم دوراں کے جانگیہ کا علم لہرانے کا حقدار ہے۔ حمیدے کی مضبوط اور فنکارانہ گرفت نے گونگے کو سنجیدگی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا اور پھر وہ چیتے کی روایتی لپک سے حمیدے پر لپکا۔ گونگے نے اسے ’’کلاوے‘‘ داؤ میں لینا چاہا مگر حمیدے نے اسی رفتار سے سیدھے ہاتھ کی کلائی اس کی شہ رگ پر رکھ دی۔ گونگا سمجھ گیا کہ حمیدا مکمل کاریگر پہلوان ہے اسی لئے تو وہ ’’کلاوے‘‘ کا اثر زائل کر گیا ہے۔گونگا بھی شناور تھا۔ وہ فن کے سمندر میں غوطہ زن ہوا اور ہتھا کھینچ کر حمیدے کے عقب میں آ گیا مگر حمیدا بھی کایاں تھا وہ فوراً گھوم گیا اور گونگے سے گتھم گتھا ہو گیا۔
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دونوں شاہ زور فن کی کاریگری دکھاتے رہے اور یونہی آدھ گھنٹہ گزر گیا۔ حمیدا پہلوان نے گونگا کو مکمل طور پر ’’وخت‘‘ میں ڈال دیا تھا۔ گاماں کلووالا اپنے شاگرد ارجمند اور چچا زاد حمیدے کی اڑان سے پھولے نہ سما رہا تھا۔ تماشائی اس دلچسپ معرکے سے خوب محظوظ ہو رہے تھے۔ حمیدا گونگے کے حصار توڑ کر اور اسے حصار میں لے کر جس طرح پھرتیاں دکھا رہا تھا، یہ سب کیلئے حیرانی کا باعث بات تھی۔ انہی حیرانوں اور مسرت آمیز ماحول میں دونوں شاہ زوروں کو برابر چھڑا دیا گیا۔
حمیدا اور گونگا کے برابر رہ جانے سے امام بخش کو دوہری خوشی ہوئی۔ حمیدا اس کا سالا تھا۔ آج اسے حمیدے کے روپ میں ایک جانثار بھائی مل گیا تھا جو خاندان کی ساکھ کو قائم رکھنے کیلئے اپنی جاں سے گزر جانے کو معیوب نہ سمجھتا تھا۔ گاماں کلووالا کی خوشیاں بھی تہری تھیں اس کی گونگے کے ہاتھوں شکستوں کا بدلہ آج حمیدے نے خوب لیا تھا۔
حمیدا رحمانی پہلوان امرتسر نواب رادھن پور کا درباری پہلوان تھا۔ اسے کم عمری میں ہی بڑے بڑے پہلوانوں پر فتوحات نصیب ہوئی تھیں۔ اس کی لڑنت دیکھ کر نواب جلال الدین نے مانگ لیا تھا۔ ریاست رادھن پور حمیدا کے جوہر دکھانے میں بڑی کارگر رہی۔ جس طرح گاماں رستم زماں کو ریاست دتیہ نے دل و جاں سے عزت دی اسی طرح حمیدا پہلوان کو ریاست رادھن پور میں اچھا نصیب ملا۔ نواب رادھن پور جلال الدین تو حمیدا کا شیدائی تھا۔ وہ من موجی اور لکھ لٹ تھا۔ رادھن پور مرشد آباد کے قریب چھوٹی سی ریاست تھی جو قدرتی وسائل سے بھرپور تھی۔یہ زرخیز خطہ حمیدے کو خوب بھایا۔ حمیدا پہلوان درویش صفت تھا۔ نواب اسے اپنے بیٹے کی طرح چاہتا تھا۔
حمیدا پہلوان 1908ء میں رحمانی پہلوان کے ہاں پیدا ہوا تھا۔ اس کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ حمیدا رحمانی والا جب پیدا ہوا تو گاماں رستم زماں اور امام بخش رستم ہند کی آخری منازل طے کر رہے تھے۔ گونگا ابھی آٹھ دس سال کا تھا۔ میدان شاہ زوری گاماں، امام بخش، رحیم بخش سلطانی والا، گاموں بالی والا، خلیفہ غلام محی الدین، کریم بخش سیالکوٹی، غلام قادر کالیہ، مہنی رینی والا، کلو پہلوان، گاماں کلووالا، حسین بخش ملتانی کے ہاتھوں میں تھا۔ حمیدا کے ہم عصروں میں حیدر امرتسری، دولا ٹائیگر، سوہن ماگھی والا، جیجا گھیئے والا، سردار جالندھری، بھماں چوڑی گر، غونثہ پہلوان وغیرہ تھے۔ حمیدا پہلوان بچپن میں کوئی غیر معمولی اٹھان والا پٹھہ نہیں تھا البتہ وہ گاماں کلووالا سے قدرے بہتر تھا۔ اس نے قلیل مدت میں کئی میدان مار لئے تھے۔اس کا ایک ثبوت تو وہ کشتیاں ہیں جو حمیدے نے دولا جالندھری (دولا ٹائیگر) اور کرم الٰہی چخاں والا سے لڑیں۔
کلو پہلوان نے حمیدا کو اپنا پٹھہ بنایا تھا۔ اس نے حمیدے کو چھ سال کی عمر میں اکھاڑے سے روشناس کرایا۔ کلو پہلوان رستم ہند نے حمیدے پہلوان کی پکڑ دیکھنے کیلئے پانچ چھ سال انتظار کیا۔ حمیدا جب بارہ سال کا تھا تو اس کی جوڑ ایک پکی عمر کے فنکار پہلوان دولا جالندھری برادر فضلا جالندھری سے رکھی گئی۔ کلو پہلوان نے اپنے شاگرد ارجمند کے فن کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے ایک کاریگر پہلوان کو میدان میں مانگ کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ دولا جالندھری کوئی معمولی پہلوان نہ تھا۔ یہ وہی مشہور زمانہ پہلوان تھا جس نے اپنے دور شباب میں دس برس تک یورپ، امریکہ، چلی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برازیل، جنوبی افریقہ، چین، مصر اور جاپان جیسے ممالک میں بھی اپنی شاہ زوری کی دھاک بٹھا دی تھی اور اسے ٹائیگر کا خطاب دیا گیا۔ دولا ٹائیگر کی حمیدا پہلوان سے یہ کشتی دولا ٹائیگر کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے۔اگرچہ دولا ایک مکمل پہلوان تھا مگر ابھی اس نے یورپ اور دوسرے براعظم فتح نہیں کئے تھے۔دولا ٹائیگر اور حمیدے کا جوڑ نہیں بنتا تھا۔دولا اگر سیر تھا تو حمیدا پاؤ بھی نہ تھا۔ البتہ کشتی میں حمیدے نے اپنی بساط سے زیادہ فنکاری دکھائی۔میدان دولا ٹائیگر نے مار لیا تھا۔اس شکست نے حمیدے کو بددل نہ کیا بلکہ کلو پہلوان نے جس غرض سے یہ کشتی کرائی تھی، وہ اس میں سو فیصد کامیاب رہا۔ وہ حمیدے کی خامیوں کو دیکھنا چاہتا تھا، سو دیکھ لیں۔ایک سال تک کلو پہلوان نے ان خامیوں کو دور کرنے میں صرف کیا اور پھر حمیدے کو دوسرے امتحان میں ڈال دیا۔(جاری ہے )
وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں