ایک تصویر لاکھوں کہانیاں
جب کوئی ایسی تصویر آپ کی نظروں سے گزرے، جس میں معاشرے کی کربناک داستان چھپی ہو، تو دل پر ایک تیر سا چل جاتا ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ملتان کے دورے پر آئے تو انہوں نے ڈسٹرکٹ بار، ہائی کورٹ بار اور نشتر ہسپتال کا دورہ کیا۔ اس دوران یہ تصویر بنی، جس میں ایک بوڑھی جھریوں زدہ چہرے والی غریب عورت، جس کا لباس شدید گرمی و حبس کی وجہ سے پسینے میں ڈوبا ہوگا۔ چیف جسٹس تک پہنچ گئی، فرطِ مسرت تو نہیں کہہ سکتے، وہ فرطِ غم میں چیف جسٹس سے لپٹ گئی۔ نجانے وہ کتنی دکھی ہوگی، مگر یہ لمحہ جسے کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کرلیا، اُس کے لئے نجانے کتنا بڑا مرہم ثابت ہوا ہوگا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کے چہرے پر دکھ کے تاثرات واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں اور شاید آنکھوں میں نمی بھی نظر آرہی ہے۔ اُس وقت اُن لوگوں کی آنکھیں بھی اشکبار ہوگئی ہوں گی،جو یہ منظر دیکھ رہے ہوں گے۔ مجھے تو اس تصویر نے بہت بے چین رکھا ہے۔ ایسی تصویریں تو کبھی کبھار بنتی ہیں، وگرنہ سیکیورٹی کا حصار دور ہی سے ایسی بوڑھی اور مظلوم خواتین کو دیکھ کر حاکموں اور عادلوں سے دور کردینا ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں خلق خدا جائے اماں ڈھونڈتی پھرتی ہے؟
اس تصویرمیں بوڑھی عورت کو دیکھ کر مجھے 25سال پہلے ضلع کچہری ملتان میں گھومنے والی ایک بوڑھی عورت یاد آگئی، جس نے بغل میں کاغذوں کی ایک پوٹلی دبا رکھی ہوتی تھی اور ہر آنے جانے والے سے سوال کرتی تھی۔ میکوں انصاف کتھاؤں مل سی (مجھے انصاف کہاں سے ملے گا)۔۔۔ وہ ہر چیمبر میں جاتی، ہر دفتر میں آواز لگاتی، لوگ اُسے پاگل سمجھ کر نظر انداز کردیتے تھے، کچھ اُس کی مالی مدد کرنا چاہتے، تو وہ یہ کہہ کر انکار کردیتی: ’’میکوں انصاف گھن ڈیو‘‘(مجھے انصاف لے دو)۔۔۔مجھے یاد ہے مَیں نے ایک دن سینئر وکیل ملک نذیر احمد اعوان مرحوم سے پوچھا تھا، اس مائی کا کیا قصہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ مائی سکینہ ہے، دلی دروازہ کی رہنے والی ہے، اس کے شوہر اور دو بیٹوں کا حادثے میں انتقال ہوا، تو یہ تنہا رہ گئی۔ اندرون شہر اس کی قیمتی جائیداد تھی، جس پر بااثر افراد نے قبضہ کرکے گھر سے نکال دیا۔یہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی۔
تمام تر ثبوت ہونے کے باوجود کوئی اس کی نہیں سنتا، کئی برسوں سے اسی طرح دھکے کھا رہی ہے۔ قبضہ کرنے والوں نے ملی بھگت سے جعلی دستاویزات بنالی ہیں۔ کوئی خدا ترس افسر یا جج اس کی بات سن بھی لے تو وہ لوگ کاغذات دکھا کر اسے جھوٹا ثابت کردیتے ہیں، اب یہ کچہری کے اندر ہی سوتی ہے، یہیں اس کی زندگی گزر جانی ہے، مگر انصاف نہیں ملنا۔ اتنی دیر میں وہ سکینہ مائی وہاں آگئی اور اس نے ہمیں دیکھتے ہی جب یہ کہا، میکوں انصاف کتھاؤں مل سی( مجھے انصاف کہاں سے ملے گا)تو میرا جی چاہا اُسے کہوں مائی جی تمہیں اس زمین پر انصاف نہیں مل سکتا، اللہ کے پاس جاکر شنوائی ہو گی۔۔۔ لیکن مَیںیہ کہہ نہ سکا، ویسے بھی اُسے یہ بات کہاں سمجھ آنی تھی، وہ تو جیتے جی اس جملے کے اندر دفن ہوچکی تھی کہ مجھے انصاف کہاں سے ملے گا؟ اب اس بوڑھی عورت کی کیا کہانی ہے، جو روتے ہوئے چیف جسٹس کے سینے سے لگ کر اپنا دکھ سناتی رہی، لیکن کہانی کچھ بھی ہو، اُس میں یہ بات ضرور شامل ہوگی کہ غریب، بے آسرا اور بوڑھا ہونے کی وجہ سے اب اس کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔ایک بے حس اور ظالم معاشرے میں ایسی بوڑھی عورتیں تو قدم قدم پر دیکھنے کو ملتی ہیں، یہ تو خوش قسمت تھی کہ ملک کے منصفِ اعلیٰ تک پہنچ گئی، وگرنہ تو اکثر بوڑھی اور مظلوم عورتیں اس قسم کی ہوتی ہیں، جس کا مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ عمران خان بہت بڑا دعویٰ کرگئے ہیں کہ وہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست جیسا بنائیں گے، ہاں اگر ایسی ریاست بن گئی تو پھر ایسی کوئی مظلوم عورت سڑکوں پر دہائی دیتی نہیں ملے گی، پھر اسے منصفِ اعلیٰ یا حاکم وقت کو ملنے کے لئے صعوبتیں نہیں اُٹھانا پڑیں گی، بلکہ وہ خود چل کر اُس کے پاس آئے گا، اسے یہ نہیں پوچھنا پڑے گا کہ انصاف کون دے گا، بلکہ انصاف اُس کی دہلیز پر ملے گا۔
اس منظر کو دیکھنے کے لئے نجانے اور کتنا انتظار کرنا پڑے، تاہم مجھے اطمینان اس بات کا ہے کہ چیف جسٹس نے بوڑھی عورت کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر اُسے دلاسہ دیا۔ اُس وقت اُن کے دل پر بھی نجانے کیا گزری ہوگی، یہ احساس بھی شاید ہوا ہو کہ اللہ نے مجھے اس ملک کا سب سے بڑا قاضی بنایا ہے، میرے پاس انصاف کا ترازو ہے، لیکن بوڑھی عورتیں انصاف کے لئے بھٹک رہی ہیں۔ خیر جسٹس میاں ثاقب نثار کے لئے یہ کوئی نیا منظر نہیں، جب سے انہوں نے خود کو عوام کی دسترس میں دیا ہے، جہاں جاتے ہیں، انصاف کے لئے ترستے عوام اُن کے راستے میں آکھڑے ہوتے ہیں۔ اب کچھ لوگ کہتے ہیں کہ چیف جسٹس دوسرے کاموں کو چھوڑ کر اپنے شعبے پر توجہ دیں تو لوگوں کو کم از کم انصاف تو ملنے لگے۔ یہ بڑی سادہ سی بات ہے، حالانکہ حقیقتیں بہت پیچیدہ ہیں۔ چیف جسٹس سے جتنے سائلین ملنے کو آئے ہیں، وہ عدلیہ کے خلاف فریاد لے کر نہیں آتے،بلکہ پولیس، انتظامیہ اور سرکاری محکموں کے ستائے ہوئے ہیں، جن کے پاس وسائل نہیں ہوتے کہ وہ مہنگے وکیل کے ذریعے عدالتوں میں کیس لڑیں۔ جب تک سرکار کے محکمے ٹھیک نہیں ہوں گے، مدینہ کی ریاست جیسا نقشہ جنم لے ہی نہیں سکتا۔جب ہر سرکاری ادارہ عوام پر ظلم ڈھانے کے لئے کمر بستہ ہو، وہاں اکیلے چیف جسٹس سب کو ظلم سے نجات کیسے دلاسکتے ہیں۔
مَیں پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پاکستان میں جو چیز سب سے نایاب ہے وہ انصاف ہے۔ عدالتوں سے ملنے والا انصاف بھی اور سرکاری اداروں سے ملنے والا عدل بھی۔ مجھے ایک جج صاحب نے بتایا کہ آپ اگر زیر التوا مقدمات کی تفصیل دیکھیں تو آپ کو علم ہوگا کہ پچاس فیصد سے زائد مقدمات لوگوں نے سرکاری اداروں کے خلاف دائر کررکھے ہیں، گویا اگر سرکاری محکمے عوام کو تکلیف کی بجائے ریلیف دینے کی پالیسی اپنالیں تو آدھے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری افسروں نے یہ وتیرا بنالیا ہے کہ خود فیصلہ نہیں کرنا اور لوگوں کو مجبور کرنا ہے کہ وہ عدالتوں سے رجوع کریں، اس طرح وہ اپنا بوجھ عدالتوں پر ڈال دیتے ہیں۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ نئی حکومت سرکاری محکموں کی کارکردگی کا پیمانہ اس نکتے کو بنائے کہ اُس کے خلاف عدالتوں میں کتنے کیسز موجود ہیں، ایک حد سے زائد کیسوں پر افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ایک کام جو محکمہ چند دنوں میں کرسکتا ہے، وہ عدالتوں میں کئی برسوں تک لٹکتا رہتا ہے، جس سے معاشرے میں اضطراب کا پیدا ہونا فطری امر ہے۔۔۔
عمران خان نے نئے پاکستان کے لئے بہت بڑے بڑے اقدامات سوچ رکھے ہیں، تاہم انہیں سب سے زیادہ توجہ اس بات پر دینی چاہئے کہ عوام کو سرکاری محکموں اورعدالتوں سے فوری انصاف کیسے فراہم کیا جائے؟چیف جسٹس کئی بار وکلاء کو باور کرا چکے ہیں کہ بار اور بینچ میں تعاون کے بغیر فوری انصاف فراہم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے لئے انہوں نے پالیسی بھی بنائی ہے، مگر لوئر جوڈیشنری کی سطح پر وکلاء ججوں پر حاوی ہو جاتے ہیں، وہ اپنی مرضی سے تاریخ لیتے ہیں، نہ دی جائے تو جج صاحب کو سبق سکھا دیتے ہیں۔ یہ بہت پیچیدہ معاملہ بن چکا ہے، مگر اسے حل کئے بغیر ہم اپنے معاشرے کے دکھوں کو کم نہیں کرسکتے۔ نئی حکومت کا ایجنڈا اور عدلیہ کے عزائم ایک پیج پر نظر آتے ہیں، اگر اس سے فائدہ اُٹھا کر معاشرے میں انصاف کی سستی اور فوری فراہمی کو یقینی بنا دیا جائے، تو یہ وہ کام ہوگا، جسے نئے پاکستان کی سب سے بڑی مثال بناکر پیش کیا جاسکے گا، وگرنہ نئے پاکستان میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھنے میں آئیں گے کہ بوڑھی عورتیں،مظلوم افراد اور انصاف کے لئے دھکے کھاتے عوام کبھی چیف جسٹس کی گاڑی روکنے کی کوشش کریں گے اور کبھی عمران خان کے آگے دست سوال دراز کریں گے۔اب یہ مناظر بدلنے چاہئیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماتھے پر ایسے مناظر بدنما داغ ہیں، اب ان داغوں کو دھونے کا وقت آگیا ہے، بلاکسی عذر کے اور بلا وقت ضائع کئے۔