بلاول کی انتخابی مہم ، تعریف ہو رہی ہے، زرداری نے موقع دیا تو کامیاب ترین ہوں گے
برائے توجہ چوہدری خادم حسین صاحب
سیاسی ڈائری
کراچی مبشر میر
الیکشن 2018 کے نتائج نے صوبے سندھ کے عوام کو ابھی تک ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے ۔ہارنے والے تو پریشان ہیں ہی لیکن جیتنے والوں کو بھی خوشی مناتے ہوئے یقین نہیں آرہا کہ آخر یہ چمتکار کیسے ہوا۔یہ بات درست ہے کہ پورے ملک میں تبدیلی کی ہوا چل چکی تھی عوام نے اپنی رائے کو محفوظ کر لیا تھا جس کا اظہار خفیہ رائے شماری سے انہوں نے کر دیا ۔کراچی میں ایم کیو ایم نے تحفظات کے باوجود وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بننے کا فیصلہ کیا ۔کراچی کی عوام کی جانب سے اس فیصلے کی تائید سنائی دیتی ہے کیونکہ کراچی گزشتہ دس برسوں سے میں اتنا پیچھے چلا گیا ہے کہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ کراچی کو لاہور جیسا ہونا چاہیے ،اگرچہ ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعت کے طور پر رہی اور پھر اسے دوستانہ اپوزیشن کا لقب بھی ملا لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا ۔کراچی کے بڑے پروجیکٹس جوں کے توں تھے ۔حتیٰ کہ بات کچرا اٹھانے اور صاف پانی کی عدم دستیابی جیسے مطالبات پر آگئی تھی۔پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت آصف علی زرداری الیکشن جیتنے کے باوجود جیت کا جشن منانے سے گریزاں ہیں ۔ان کو زعم تھا کہ وفاق میں ان کے بغیر حکومت نہیں بن سکے گی ۔متحدہ اپوزیشن میں وہ دوسرے درجے کی جماعت کے طور پر مجبوراًبیٹھ رہے ہیں ۔گزشتہ اسمبلی میں وہ اول درجے کی اپوزیشن تھے گویا سندھ حکومت رکھتے ہوئے بھی ان کی تنزلی ہو گئی ہے ۔
الیکشن مہم میں بلاول بھٹو زرداری نے جس انداز سے خود کو پیش کیا اور عوام سے وعدے کیے اس سے دکھائی دیتا ہے کہ سندھ حکومت میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہی اتھارٹی ہو نگے اگر وہ اس صورت حال میں کامیاب ہوتے ہیں تو پارٹی کے اندر بہت بڑی تبدیلی ہو گی ۔آصف علی زرداری اور فریال تالپور ایف آئی اے میں منی لانڈرنگ کیس میں پھنستے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔انہوں نے جے آئی ٹی کے سربراہ نجف مرزا کی تعیناتی پر اعتراض اٹھایا ہے۔ یہ جے آئی ٹی بھی اگر پانامہ کیس کی طرح ہوئی تو ان کے لیے شریف فیملی جیسی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ اس صورت حال میں بلاول بھٹو زرداری کو اپنی قائدانہ صلاحتیں منوانے کا راستہ مل جائے گا ۔صوبہ میں گورنر سندھ محمد زبیر کے مستعفی ہونے کے بعد بھی یہ کیفیت برقرار رہے گی کہ تین اہم عہدوں پر تین مختلف پارٹیوں کے لوگ براجمان رہیں گے ۔وزیراعلیٰ سندھ پیپلز پارٹی ،گورنر سندھ پی ٹی آئی اور مئیر کراچی ایم کیو ایم ،یوں تو جمہوری معاشرے کی یہ اعلیٰ مثال ہے لیکن گزشتہ دور میں یہ تجربہ زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیا ۔صوبائی حکومت اپنی ترجیحات کے ساتھ کام کرتی ہے جبکہ وفاق کی ترجیحات مختلف ہوں گی ۔گورنر کے لیے پی ٹی آئی نے عمران اسماعیل کا نام فائنل کرلیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے سید مراد علی شاہ کا نام سامنے آرہا ہے ۔مئیر کراچی وسیم اختر ہیں ۔پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے معاہدے کے بعد گورنر سندھ اور میئر کراچی میں ہم آہنگی اور قربت رہے گی جبکہ میئر کراچی کو صوبائی حکومت سے پھر بھی مسائل اور شکایات کا سامنا جوں کا توں رہتا دکھائی دیتا ہے ۔
کراچی صوبہ سندھ کو 90 فیصد سے زیادہ ریونیو دیتا ہے لیکن سندھ کی صوبائی حکومت نے گزشتہ دس برسوں میں اس کی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کیا۔سندھ حکومت جس شہر کے ریونیو کے بل بوتے پر چلائی جاتی ہے اس کے شہری پانی کی بوند بوند کوترستے رہتے ہیں ۔کچرے کے ڈھیر میں زندگی گزارتے ہیں ۔سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے زلیل و خوار ہوتے ہیں ۔الغرض مسائل کا انبار ہے۔پی ٹی آئی کراچی شہر کا سب سے زیادہ مینڈیٹ لینے والی پارٹی کے طور پر اقتدار میں موجود ہو گی جبکہ وہ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی ،ایم کیو ایم کے ساتھ وعدے بھی ہو چکے ہیں چنانچہ عمران خان کے لیے بحیثیت وزیر اعظم کراچی کے مسائل کا حل ایک بڑا چیلنج ہو گا ۔گزشتہ منصوبوں کی تکمیل کے علاوہ شہر کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے منصوبوں خاص طور پر جو وعدے انہوں نے اپنے منشور میں کیے ہیں اس کے لیے کراچی پیکج پہلے سو دن کی حکومت میں سامنے آنا بہت ضروری ہے ۔وفاق کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومت اور شہری حکومت کو ایک صفے پر لائے اور سب مل کر کراچی کی رونق بحال کریں۔