انتخابات، ایکسٹرا کے ” ٹھمکے“ اور ٹائمنگ، غمزہ و عشوہ و ادا کے حوالے سے دلوں کو چھوتی ایک اچھوتی رپورٹ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن)عام انتخابات کا غلغلہ تھمنے کو ہے۔ دھاندلی کی تھاپ اور تبدیلی کی سرگم پر ہم وہی پرانی دھنیں سن رہے ہیں، جن پر ناچنے والے بھی پرانے ہیں اور ایکسٹرا اپنے اپنے ’ٹھمکوں‘ کی تعداد اور ٹائمنگ پر توتکار میں مصروف ہیں۔
جرمن نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق نیا تھیٹر شروع ہوا چاہتا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے۔ سٹیج کی سجاوٹ، ملبوسات کی آزمائش اور مکالموں کو رٹنے رٹانے کے مراحل بھی سکرپٹ کا حصہ ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ مخصوص گیلری میں بیٹھے خصوصی مہمان دراصل ہدایت کار اور پروڈیوسر ہیں۔ ان سب کے ہاتھوں میں چھوٹے بڑے موبائل فون ہیں،کچھ کانوں سے لگے،کچھ آنکھوں اور ہونٹوں کے سامنے، چمکتے ہوئے۔
اور یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ اس تھیٹر میں بطور اداکار منتخب ہونے کے لیے امیدواروں کو جو جنگ لڑنا پڑی ہے، اس میں ان موبائل فونز نے مرکزی ہتھیار کا کام دیا ہے۔ اس جادوئی آلے سے رابطے بھی ہوئے، معلومات کی ترسیل بھی ہوئی اور مخالفوں کے خلاف جھوٹی خبریں بھی پھیلائی گئیں۔ پہلے یہ کام سینہ بہ سینہ کیا جاتا تھا یا اس کے لیے پمفلٹ وغیرہ چھاپے جاتے تھے۔ تقاریر میں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے تھے لیکن پھر بھی اس کا پھیلاو اس قدر کبھی نہ تھا۔ سوشل میڈیا نے ڈانسروں، ہدایت کاروں، کیمرہ مینوں اور ’انٹرٹینمنٹ‘ پر معمور صحافیوں کا کام آسان تو کیا ہے لیکن ’کلچر‘ کو پستی کی جانب بھی دھکیل دیا ہے۔
انتخابات کے دنوں میں جھوٹی خبروں کا پھیلاو یا پروپیگنڈہ کوئی انہونی بات نہیں۔ دنیا بھر میں، کہیں کم کہیں زیادہ، یہی کچھ ہوتا ہے۔ آج کل یہ کام عام میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی کیا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس کام کے لیے سوشل میڈیا انتہائی کارگر ثابت ہوا ہے۔ تاہم ترقی یافتہ دنیا کے برعکس پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں میں جھوٹے بیانیوں اور جھوٹی خبروں کے نقصانات بہت گہرے ہوتے ہیں کیونکہ یہاں نہ صرف یہ کہ تعلیم کی کمی ہوتی ہے بلکہ خبر کی صداقت کو جانچنے کا کوئی قابل عمل نظام بھی نہیں ہوتا۔
پاکستان میں، جہاں بیسیوں نیوز چینل دن رات چل رہے ہیں اور ان میں سے ہر کوئی ہر کسی پر سبقت لے جانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ ’بریکنگ نیوز‘ کے خبط نے جھوٹی خبروں کا سیاسی کلچر رائج کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف اخبارات و جرائد کی اشاعت میں کمی اور آن لائن میڈیا میں اضافے کی وجہ سے قاری اور ناظر کے لیے خبروں کا ایک ایسا ’سیلاب‘ امڈ آیا ہے کہ جس کی تصدیق اس کے لیے ممکن نہیں۔ سچ یہ ہے کہ ایک آدھ اخبار اور نیوز چینل کے سوا باقی تمام گھٹیا درجے کی بازاری صحافت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، جسے عام طور پر سنسنی خیزی پر مبنی ’زرد صحافت‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
مارچ 2018ءمیں ایک خبر پھیلائی گئی کہ مسلم لیگ ن نے آئندہ انتخابات میں دھاندلی کے لیے معروف کمپنی ’کیمرج اینالیٹیکا‘ کی خدمات حاصل کیں ہیں۔ اس کمپنی کے متعلق افواہ تھی کہ اس نے امریکی انتخابات میں اثرانداز ہونے کے لیے پانچ کروڑ جعلی فیس بک اکاونٹ بنائے تھے۔ لیکن چونکہ اس خبر میں کہیں کوئی حوالہ نہیں تھا لہذا تھوڑے ہی عرصہ میں یہ میڈیا سے غائب ہو گئی تاہم برسراقتدار حکومت کی ساکھ خراب کرنے اور اس کے بارے میں شکوک و شبہات جنم دینے کا کام بخوبی کرگئی۔ معروف جریدے دی ڈپلومیٹ کے مطابق، ”تقریباہر سیاسی جماعت اپنے مخالفین کے مقابلے میں متعدد جعلی فیس بک اور ٹویٹراکاو¿نٹ چلا رہی ہے۔“
اسی طرح سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ کی بیماری، علاج اور ’رحلت’ کے بارے میں جھوٹی خبروں کا بازار گرم کیا گیا۔ اس نوعیت کی سوشل میڈیا پوسٹس سے ایک ذہنی خلجان پیدا ہوتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ ایک نوعیت کا ذہنی تشدد ہوتا ہے۔ پھر فاروق بندیال کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے والی خبر کو لیجیے۔ سوشل میڈیا پر ایک ردعمل سامنے آیا، جس کے بعد اس جماعت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کے بعد فلم سٹار شبنم کے نام سے ایک جعلی اکاونٹ بنایا گیا اور فاروق بندیال کو پارٹی میں شامل نہ کرنے کے لیے شکریہ ادا کیا گیا۔ اس جعلی پوسٹ پر چند گھنٹوں کے اندر اندر اس قدر ردعمل آیا کہ مرکزی میڈیا نے بھی اسے چلا دیا۔ اس طرح ایک جھوٹی خبر سے ایک پارٹی کی ساکھ بڑھانے کی کوشش کی گئی۔
دوسری طرف عمران خان کے خلاف ایک پوسٹ کی صورت حال ملاحظہ فرمائیے۔ اس کے مطابق، ”خدا کی پناہ، ممکنہ خاتون اول جنات سے رابطے میں ہیں۔ آپ کس کو ووٹ دینے جا رہے ہیں، جس کی بیوی تعویز گنڈے کر رہی ہے۔ جنات کو بنی گالہ گھر میں کچا گوشت کھلا رہی ہے اور دیواروں سے باتیں کرتی ہے۔ اس کے کہنے پر عمران خان اپنے جسم پر معجون مل کر چلہ کرتا ہے۔“ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ اس پوسٹ میں سرے سے دشنام اور افواہ سازی سے کام لیا گیا ہے اور اس کی تصدیق کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ اور یہ دیکھنا بھی آسان ہے کہ اس نوعیت کی خبروں نے کس طرح ان انتخابات کے ماحول کو مکدر کیا۔
اس حوالے سے ایک بڑے پیمانے پر آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو خصوصانوجوانوں کو بتایا جائے کہ جھوٹی خبر کیا ہوتی ہے اور اس کی تصدیق کے عمومی طریقے کیا ہوتے ہیں؟
ایک عالمی تنظیم، ’نیٹ ورک برائے اخلاقی صحافت‘ کے مطابق، ”جھوٹی خبر وہ خبر ہے جسے دانستہ طور پر اپنے قارئین، سامعین یا ناظرین کو گمراہ کرنے کے مقصد سے گھڑا گیا ہو۔“ جھوٹی خبر سے بچنے کے طریقے بھی بہت واضح ہیں۔ ایک سے زیادہ ذرائع سے تصدیق کیجئے اور دیکھیے کہ خبر کا منبع یا مصنف کون ہے۔ تیسری بات یہ کہ کیا اس خبر کو اچھی ساکھ والے مرکزی میڈیا نے لیا ہے یا نہیں۔
کیا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور ’نیکی بدی‘ کی تازہ ترین تفریق پر مشتمل سیاسی اور اقتداری تھیٹر کے موجودہ کرداروں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک اتفاق رائے قائم کر لیں کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے، اس مصنوعی ہار جیت کے لیے، اپنی نسلوں کے کردار کو داو پر نہیں لگائیں گے اور مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے جھوٹ سے پرہیز کریں گے؟
باقی ٹھمکوں کی تعداد اور ٹائمنگ پر توتکار جاری رکھیے، مخصوص گیلری کی طرف دیکھ دیکھ کر غمزہ و عشوہ و ادا کا کھیل کھیلتے رہیں کہ یہ بھی سکرپٹ کا حصہ ہے۔