انتخابات کے روز چیف الیکشن کمشنر سو رہے تھے ، میں نے 3بار رابطہ کیا جواب نہ ملا ، چیف جسٹس
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر ) چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پتا نہیں الیکشن کمیشن کیسے چل رہا ہے، انتخابات کے روز میں نے چیف الیکشن کمشنر سے تین دفعہ رابطہ کیا ، انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، میرے خیال سے شاید وہ اس دن سو رہے تھے۔منگل کو سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی مخصوص نشست پر امیدوار عابدہ راجہ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے متعلق اہم ریمارکس دیئے کہ پتا نہیں الیکشن کمیشن کیسے چل رہا ہے، جب ہمارے پاس کیسز آئیں گے تو معلوم نہیں کیا کریں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اچھا بھلا انتخابی عمل جاری تھا لیکن الیکشن کمیشن نے مہربانی فرما دی۔بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان آئندہ آنے والے وزیراعظم ہیں، لہٰذا بنی گالا تجاوزات کے معاملے کو وہ خود دیکھیں، یہ ان کیلئے ٹیسٹ کیس ہوگا۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں بنی گالہ تجاوزات کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بابر اعوان، سروئیر جنرل آف پاکستان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ بنی گالہ میں تجاوزات کے معاملے پر دفعہ 144 نافذ ہے۔ساتھ ہی انہوں نے تجویز پیش کی کہ نئی حکومت کو بنی گالہ تجاوزات سے متعلق فیصلہ کرنے دیا جائے۔عدالت نے محکمہ مال راولپنڈی کی سرزنش کرتے ہوئے محکمہ مال کے سیکریٹری کو سروے جنرل آفس کو مطلوبہ ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی سروے جنرل آفس کورنگ نالے کا سروے 6 ہفتوں میں مکمل کرے۔عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ 6 ہفتوں میں سروے مکمل ہو، مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔اس کے ساتھ ہی کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے شاہین ایئرلائنز کیس میں ریمارکس دیئے کہ اس کیس کے دو حصے ہیں‘ ایک آپ کا سول ایوی ایشن کے ساتھ معاملہ ہے دوسرا لوگوں کو ہرجانے کی ادائیگی ہے‘ جو پیسے چین میں قیام پر خرچ کئے وہ اور ہرجانہ ادا کریں‘ بیس تاریخ کو لاہور میں عمل درآمد رپورٹ دیں۔ سی ای او شاہین ایئرلائنز نے بتایا کہ ہم نے پچاس لاکھ روپے مختص کئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو کروڑ روپے رکھیں بیس تاریخ کو لاہور میں عمل درآمد رپورٹ دیں۔ سپریم کورٹ نے این آر او کیس میں سابق صدور آصف زرداری اور پرویز مشرف کے غیرملکی اثاثوں کی تفصیلات دوبارہ طلب کرلیں۔منگل کو سپریم کورٹ میں این آر او کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثارنے ریمارکس دیئے کہ پرویزمشرف، ملک قیوم اورآصف زرداری کا جواب آچکا ہے ٗ کیا تینوں افراد نے اپنی بیرون ملک جائیداد کوتحریری جواب میں ظاہرکیا؟۔ آصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ بیرون ملک جائیداد کی تفصیل نہیں دی۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ بیرون ملک جائیداد کی تفصیل کیوں نہیں دی، تینوں بتائیں کہ ان کی ملک اورملک سے باہرکونسی پراپرٹی اوراکاؤنٹس ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگ قوم کے سامنے سرخروہوں جس پر آصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ آصف زرداری نے الیکشن لڑا ہے، کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی دیا ہے، آصف علی زرداری کے بچے آزاد اور خود مختارہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ چلیں کوئی بات نہیں آصف زرداری اپنے اوربچوں کی تفصیل دے دیں، اگرنہیں تو بچوں کو الگ سے نوٹس کرکے تفصیل مانگ لیتے ہیں جس پرآصف زرداری کے وکیل نے کہا کہ عدالت جوحکم کرے تعمیل ہوگی جبکہ پرویزمشرف کے وکیل نے کہا کہ پرویزمشرف کے اثاثوں کی تفصیل دے دیں گے۔عدالت نے آصف زرداری، پرویزمشرف اورملک قیوم سے غیرملکی اثاثوں کی تفصیل دوبارہ طلب کرلی۔سپریم کورٹ نے مسلح افواج میں دہری شہریت کا معاملہ موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دیا۔منگل کو سپریم کورٹ میں مسلح افواج میں دہری شہریت کے معاملے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی، سیکرٹری دفاع سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، سیکرٹری دفاع نے عدالت میں بتایا کہ راحیل شریف کے این او سی پر جی ایچ کیو اور وزارت دفاع کو اعتراض نہیں، احمد شجاع پاشا نے جواب دیا ہے کہ وہ نوکری نہیں کر رہے، جی ایچ کیو نے منظوری دے کر وزارت دفاع کو بھجوادیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ قانون کے مطابق این او سی وفاقی حکومت جاری کرتی ہے، این او سی کی منظوری وفاقی کابینہ سے لینا ضروری ہے، عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ جی ایچ کیو این او سی دے کر وزارت دفاع کو بھجوا دیا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت سے این او سی کی منظوری ضروری ہے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا اختیار وفاقی کابینہ کے ذریعے استعمال ہوتا ہے، این او سی معاملے پر اٹارنی جنرل اور سیکرٹری دفاع نے وقت مانگا، عدالت نے کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس