گداگر مافیااور نیا پاکستان
گداگر مافیا سے لڑے بغیر نیا پاکستان کیسے بنے گا، ایک بڑی دولت،صدقہ خیرات کی صورت میں ان کے قبضے میں جارہی ہے اور آبادی میں دن رات اضافہ کرنے میں مصروف یہ طبقہ اس بات سے بے پروا ہے کہ ان کے لئے پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کسی ناسور کا درجہ رکھتی ہے ۔
ہم گھر سے اللہ کا نام لیکر نکلتے ہیں تودیکھتے ہیں کہ سڑکوں چوراہوں پر اللہ کا واسطہ دیکر مسافروں پرحملہ کرنے کے لئے گداگر فوج تیار کھڑی ہوتی ہے ۔اللہ کا ڈر نہ ہو تو بندہ گداگروں کی ایسی گت بنا دے کہ گداگروں کو حقیقت میں اللہ یاد آجائے ،لیکن یہ تو بے شرم لوگ ہیں ۔انہیں قطعاً احساس نہیں کہ جس مالک نے انہیں صحت و توانائی دی اسکا شکر ادا کرتے ہوئے محنت کریں ،گداگری کو پیشہ نہ بنائیں ۔افسوس کہ ملک میں ایسی کوئی اینٹی گداگر فورس بھی نہیں جو مستقلاً ا س بڑھتی ہوئی فوج کو روک سکے جس نے سڑکوں,گلیوں، محلوں,بازاروں ,ہوٹلوں پر "اللہ کی توفیق" کے نام پر ناکہ لگایا ہوتا ہے۔ ان کو دیکھ کر ایک باشعور شخص کے دل میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جو غصے اور ترس کے ملاپ سے جنم لیتی ہے. مگر اکثریت ایسی ہے جو ان کے ہاتھوں کو پیسوں سے بھر کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خدا اور بندے دونوں کو راضی کرلیا ہے مگر ایسے لوگ شکر نہیں لالچ کے شکنجے میں آتے ہیں پھر اس سے ایک سوچ نمودار ہوتی ہے اور اس کا شکار ایسے بھکاریوں کی آنے والی نسلیں ہوتی ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم دوات کے بجائے ایک ٹوکری تھما دی جاتی ہے. ان کو حلال اور حرام کا فرق نہیں سمجھایا جاتا. اسی طرح اس ملک کو غربت کے گڑھے میں دھکیل دیا جاتا ہے.
پاکستان کا ہر ایک بچہ جانتا ہے کہ اس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی سطح لکیر سے بھی نیچے ہے. مگر شاید یہ کوئی جاننے کو تیار نہیں کہ اس لکیر سے اوپر زیادہ تر لوگ آنا ہی نہیں چاہتے. اب بھکاری پروفیشنل ہو چکے ہیں. اب بھکاری بڑے شہروں میں گروپ کی شکل اختیار کر چکے ہیں. ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ بھکاری ہمارے ملک کے مڈل کلاس خاندانوں سے زیادہ آسائشات استعمال کرتے ہیں. بڑھتی آبادی کا سب سے بڑا سبب یہی لوگ ہیں جو اولاد محض اس دھندے میں جان ڈالنے کے لیے پیدا کرتے ہیں.یہ کچھ ایسے عناصر ہیں جو معیشت اور معاشرت دونوں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں. ہمیں سائل اور مسائل دونوں میں فرق جاننا ہو گا. صدقہ خیرات کرنے والے ممالک میں پاکستان نمایاں ہے مگر پھر بھی غربت بڑھ رہی ہے کیونکہ یہ صدقہ مستحق کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خیبر سے کراچی تک کی ہر سڑک پہ نظر آنے والے بظاہر درویش مگر در حقیقت مافیا کے ہاتھ میں جا رہا ہے. ہماری سوچ ابھی بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑی نظر آتی ہے. ہمارے ملک کے معاشی, سماجی اور سیاسی حالات لوگوں کو سڑک پہ بیٹھ کر بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ لوگ ا س مجبوری کو اپنی ڈھال بنانے لگ گئے ہیں. عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے تو امید کرنی چاہئے کہ ملک کو بھکاریوں سے بھی نجات دلادیں گے ۔ان کو ذمہ دار شہری بنا دیں گے ۔
۔
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔