ہم نماز کے دوران التحیات للہ کیوں پڑھتے ہیں؟
ہر مسلمان کو نماز کے دوران حالت قعدہ میں بیٹھ کر کچھ مخصوص الفاظ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جن کو اصطلاح میں تشہد اور عام زبان میں ’’التحیات‘‘کہتے ہیں،اس میں پہلے اللہ کی حمدوثنا ہے،پھر نبی کریم ﷺپر سلام ہے ،اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہے،اور پھر توحید ورسالت کی گواہی پریہ دعا ختم ہوتی ہے
یہ نماز کا لازمی حصہ ہے ،یہ التحیات للہ ہے جسے مسنون طریقہ سے ادا کیا جاتا ہے ۔ التحیات للہ کے بارے ایک روایت ان دنوں عام ہورہی ہے کہ یہ وہ مکالمہ ہے جو دراصل شب معراج کی رات سدرۃ المنتہی کے مقام پر سجدہ کی حالت میں اللہ کے پیارے حبیب حضرت مصطفیﷺ اور اللہ کریم و فرشتوں کے درمیان ہوا تھا جسے ہر نماز میں فرض قرار دیا گیا ہے لیکن مستند احادیث کی کتب میں اس مکالماتی روایات کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔البتہ التحیات سے منسوب روایات موجود ہیں تاہم یہ مکالماتی واقعہ کچھ فقہ کی کتابوں میں بھی پایا جاتا ہےمثال کے طور پر "تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق" اورروح المعانی، اسی طرح قسطلانی اور شعرانی جیسے صوفیوں کی کتابوں میں بھی یہ واقعہ مذکور پایا جاتاہےلیکن کسی میں اسکی سندبیان نہیں کی گئی ۔
صحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےالتحیات کے یہ الفاظ مروی ہیں:
التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ-
بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ التحیات کا تعلق معراج سے جوڑنا بالکل بے بنیاد ہے اور اس قصہ کی کوئی اصل نہیں , کیونکہ معراج پہ نماز فرض ہوئی جبکہ التحیات نماز کے فرض ہونے کے بعد فرض ہوا , لوگ نماز میں التحیات کی جگہ اپنی مرضی کے الفاظ پڑھا کرتے تھے , پھر انہیں نبی مکرمﷺ نے التحیات کے کلمات سکھائے ۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ نے فرمایا کہ ہم جب نبی مکرم ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے تو ہم کہتے تھے السَّلاَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِبَادِهِ، السَّلاَمُ عَلَى فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ (اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلامتی ہو، اور فلاں فلاں پر سلامتی ہو) تو نبی کریم ﷺہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا السَّلاَمُ عَلَی اللہ نہ کہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ’سلام‘ ہے بلکہ تم کہو: التحیات للہ وَالصلوَاتُ وَالطیباتُ، السلام عِلیک اَیھا النبی وَرحمۃ اللہ وَ برکاتہُ، اَلسلام علینا وَ علیٰ عبا د اللہ الصالحین، (ہمہ قسم قولی، فعلی، اور مالی عبادات اللہ ہی کے لیے ہیں، اے نبی ﷺ آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں، ہم پر بھی اور تمام تر نیک پر بندوں پر بھی سلامتی ہو) جب تم یہ کہہ لو گے تو (سلام) زمین وآسمان میں یا زمین وآسمان کے درمیان موجود ہر نیک بندے کو پہنچ جائے گا، (پھر کہو) اشھد ان لاالہ الا اللہ و اَشہدوان محمد عبدہ و رسولہ(میں گواہی دیتا ہوں کہاللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اسکے بندے اور رسول ہیں ) پھر اس کے بعد جو دعاء تمہیں پسند ہو وہ کر لو۔
التحیات للہ کے بارے جومتفق علیہ حدیث ہے وہ کچھ اسطرح ہے۔ امام احمد نے اس حدیث کو ابو عبیدہ سے، وہ اپنے والد سے، اور وہ عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے انہیں تشہد سکھایا اور لوگوں کو مکمل تشہد سکھانے کا حکم بھی دیا۔امام ترمذی کہتے ہیں" ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث تشہد کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے، اکثر صحابہ، تابعین اور اہل علم کا اس پر عمل ہے" امام ابو بکر بزّار کہتے ہیں" تشہد کے باب میں صحیح ترین حدیث یہی ہے ۔
بعض مفسرین کے مطابق سدرۃ المنتہی پر یہ سلام زیادہ معروف ہے جو رسول اللہﷺ نے بارگاہ خدا میں پیش کیا تھا ۔یہ سورہ یسین میں بیان کیا گیا ہے۔ سَلامٌ قَوْلاً مِنْ رَبٍّ رَحِیمٍ " نہایت رحم کرنے والے پروردگار کی طرف سے تم پر سلامتی ہو"اس آیت مبارکہ کی تفسیر کے ضمن میں ایسے واقعہ کے بارے بیان کیا گیا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے بارگاہ خدا میں سلام کیسے پیش کیا تھا ۔"مفسرین بیان کرتے ہیں کہ اس سے اشارہ ہ ملتاہے کہ اللہ تعالی کے اس سلام کی طرف جو شب معراج کو نبیﷺ پر اللہ تعالی نے فرمایا تھا :اے نبیﷺ! آپ پر اللہ تعالی کی سلامتی ، رحمتیں اور برکتیں ہوں" تو نبی ﷺ نے اس سلام کو قبول کرتے ہوئے جواب دیا تھا ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی ہو" اس تفسیر کو روح المعانی میں بیان کیا گیا گیا ہے تاہم دیگر صوفیا کرام نے کتابوں میں اللہ اور رسول اللہ کے مابین مذکورہ واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اسکے حوالہ و دلائل نہیں دئیے جس سے ثابت ہوکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ روایات میں یہی تشہد صحیح ترین ہے۔