”سپہ سالار کاعزم مہمیز ثابت ہوا “

”سپہ سالار کاعزم مہمیز ثابت ہوا “
”سپہ سالار کاعزم مہمیز ثابت ہوا “

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بھارت کی جانب سے کی جانیوالی برصغیر کی تاریخ کی متنازعہ ترین آئینی ترمیم جس میں اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی چنداں پروا نہ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا گیا پر عالمی سطح پر کوئی فوری ردعمل سامنے نہ آیا جس سے لگتا تھا کہ جیسے عالمی طاقتیں اور دیگر دنیا کی جانب سے بھارت کواس کے اس مکروہ ترین فعل کی انجام دہی کیلئے مکمل پشت پناہی حاصل تھی ۔
پاکستان مسئلہ کشمیر کا بنیادی فریق ہے بلکہ روز اول سے مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کی نہ صرف سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے ہوئے بلکہ اس مقصد کیلئے بھارت کے ساتھ تین جنگیں بھی لڑ چکاہے ۔ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پر امن اور منصفانہ حل کیلئے باربار مذاکرات کی دعوت کے باوجودبھارت نے انتہائی ڈھیٹائی اوربے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح کشمیریوں کے حق کو یکطرفہ آئینی ترمیم کرکے آرٹیکل 370اور 35اے کا خاتمہ کیا تو اس پر مقبوضہ کشمیر کی تمام سیاسی جماعتیں بھارت کے خلاف یک زبان ہوگئیں ۔ دوسری جانب پاکستان کی طرف سے بھی ردعمل سامنے آیا ۔
اس معاملے کو بنظر غائر دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سب سے پہلے پاکستان کی جس عظیم شخصیت نے شدید ردعمل دیاوہ آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی ہے جنہوں نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہونے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن سے قبل کور کمانڈرز کانفرنس بلا کر بھارت اور دنیا پر واضح کردیا کہ” پاک فوج کشمیری بھائیوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے اور اس کیلئے کسی بھی حد تک جائے گی “۔ دنیا کی واحد نظریاتی اسلامی مملکت کے سپہ سالار کے الفاظ نے جہاں بھارتی مظالم کا شکار مظلوم کشمیروں کو حوصلہ دیاہے تو وہاں پر پاکستان میں سیاسی رہنماﺅں کوبھی تحریک دی ہے جس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کی کسی بھی ممکنہ جارحیت پر منہ توڑ جواب دینے کیلئے موثر حکمت عملی بنائی گئی اور ساتھ ساتھ وزیر اعظم کی طرف کشمیر پر ڈی جی آئی ایس آئی ، ڈی جی ملٹری آپریشنز، ڈی جی آئی ایس پی آر ودیگر ارکان پر سات رکنی خصوصی کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے پر صدر پاکستان کی جانب سے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی میں حکومتی اور اپوزیشن رہنماﺅ ں کی لہجوں کی گھن گرج میں بھی واضح طور پر کشمیر پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ کے جرات مندانہ موقف کی حرارت نظر آئی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہو جس طرح بہادر شاہ ظفر کی بجائے ٹیپو سلطان کاراستہ منتخب کرنے کی بات کرکے قوم کے مورال کو بلند کیا تو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی جس جوش وجذبے کے ساتھ کشمیر پر اپوزیشن کا موقف پیش کیا، اس نے بلاشبہ پاکستانی قوم کے جذبوں کونیا تحرک اور توانائی فراہم کی۔پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں، وفاقی وزرا ، ارکان اسمبلی اور سینیٹر ز نے بھی اپنے اپنے اظہار خیال میں کشمیریوں کے لئے پاکستانی عوام کے جذبات بیان کئے،کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد کیا اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے بھارت کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کیخلاف مشترکہ مذمتی قرارداد منظور کی گئی جس پر پاکستانی قوم اپنی حکومت اور اپوزیشن کوخراج تحسین پیش کرتی ہے ۔
مزید بر آں آرمی چیف اور پاک فوج کی کشمیر اور کشمیریوں کے لئے دوٹوک کمٹمنٹ ہے جس نے دنیا کو چوکنا کردیا اور اب عالمی سطح پر بھی بھارت کے اس غیر آئینی اقدام کی مذمت کی جارہی ہے ، سب سے پہلے چین کی جانب سے ردعمل آیا ، بعد میں برطانیہ کی جانب سے مذمت کی گئی اور اب بھارت کے دعوے کے باوجود امریکہ نے بھی کہہ دیاہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل امریکہ کواس بارے میں آگاہ نہیں کیا تھا جو بھارت کی ریاستی دہشتگرد حکومت کیلئے انتہائی سبکی کا باعث ہے ۔ تاریخی طور پر بھی دیکھا جائے تو پاک فوج پاکستانی قوم کی حمایت کے ساتھ ملکی دفاع کا اولین حصار ثابت ہوئی ہے۔ پاک فوج نے جہاں سرحدو ں پر پاک وطن کی طرف دیکھنے والی میلی آنکھوں کوپھوڑا ہے تو وہاں اندونی دشمنوں کا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر ہونیوالی سازشوں کا بھی سد باب کیاہے ۔ملکی دفاع کیلئے ہزاروں شہادتوں کا نذرانہ پیش کرنے اور ناقابل فراموش کردار ادا کرنے پر ہمیں پاک فوج اور اپنے عظیم سپہ سالار پر فخر ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم اپنے ملک کی آن پر ہمہ وقت قربان ہونے کیلئے تیار رہنے والی دفاعی لحاظ سے دنیا کی مضبوط اور بہترین فوج رکھتے ہیں۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -