تنازعہ کشمیر……حقیقت پسندانہ رویے اور موقف کی ضرورت!

تنازعہ کشمیر……حقیقت پسندانہ رویے اور موقف کی ضرورت!
 تنازعہ کشمیر……حقیقت پسندانہ رویے اور موقف کی ضرورت!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


گزشتہ دو روز کے اندر بیک وقت بہت کچھ ہو گیا،تجربے اور ناتجربہ کاری، ویژن اور کنفیوژن اور ساتھ ہی ”اکھنڈ بھارت“ کے منصوبے کی اینٹ بھی رکھی گئی،بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پختہ ضد اور منصوبے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا ”اٹوٹ انگ“ بنا دیا اور بھارتی آئین ہی کے مطابق بھارت میں برسر اقتدار آنے والی حکومتیں اپنی راہ میں جو رکاوٹ سمجھتی تھیں اسے دور کر دیا گیا اور مروجہ طریق کار، پارلیمانی پریکٹس اور بھارت کے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مودی سرکار نے اسی آئین کے آرٹیکل 370 اور35-A کو ختم کر کے بزعم خود کشمیر کا تنازعہ ختم کر دیا اور کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا، اس سلسلے میں بین الاقوامی پابندی، عالمی ردعمل اور اصولوں کو پاؤں تلے روندا گیا اور کسی کی بھی پروا نہ کی گئی،اس پر ردعمل بھی ظاہر ہے جو ہو رہا ہے۔


دوسرا اہم تر واقعہ تو پاکستان میں ہوا،جہاں یہ ثابت کر دیا گیا کہ پوری قوم کے متحد اور متفق ہونے کے باوجود حکمران جماعت کی پارلیمانی امور میں ناتجربہ کاری نے بدمزگی بھی پیدا کی اور اندیشہ ہے کہ جو موقف حکمران جماعت نے اختیار کیا وہ ہمارے لئے نقصان دہ ہو گا،ہم پہلے بھی گزارش کر چکے کہ عمر ِ عزیز کا بیشتر حصہ سیاسی، پارلیمانی اور قانونی رپورٹنگ میں گذارا، اس حوالے سے ذاتی تجربہ ہے،جہاں تک پارلیمانی احوال کا تعلق ہے تو ہم نے جمہوری مجلس عمل کی جنرل ایوب کے خلاف تحریک سے پاکستان قومی اتحاد کی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اور اس کے بعد کی ایم آر ڈی اور اے آر ڈی وغیرہ کی تحاریک کی رپورٹنگ بھی کی ہے،اس حوالے سے1985ء سے1999ء تک کی کشمکش اور شدید محاذ آرائی بھی دیکھی،جبکہ1965ء اور 1971ء کی دو جنگوں کی کوریج بھی کی،اس سارے عرصے میں مغربی پاکستان اسمبلی،پنجاب اسمبلی، قومی اسمبلی اور مجلس شوریٰ کی کارروائیاں رپورٹ کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہوا، ہم اپنے ان پچپن سالہ تجربے کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ پارلیمانی اور سیاسی سطح پر جتنی ناتجربہ کارحکومت تحریک انصاف کی ہے ایسی کبھی نہیں آئی،آج کل پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر اعظم سواتی ہیں،جن کا مبلغ تجربہ جمعیت علماء اسلام(ف) سے ہو کر تحریک انصاف تک کا ہے اور اب دوسری بار وزیر بنے ہیں،پارلیمانی امور کے حوالے سے انہوں نے جو فاش غلطیاں کیں ان کی وجہ ہی سے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں بدمزگی ہوئی۔

اگرچہ شرکاء نے کھل کر بھارتی عمل کی مذمت کی اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا مکمل اظہار کیا،لیکن جس قومی اتفاق رائے کی ہم امید کرتے رہے ہیں، وہ پیدا نہیں ہو سکا،حالانکہ1965ء کے بھارتی حملے کے بعد یہ موقع آیا،جب مرنے مارنے پر تلی اپوزیشن نے قومی مفاد کے سامنے سرنڈر کیا، 1965ء کا وہ دور یاد ہے جب ایوب خان نے بنیادی جمہوریت(موری ممبر) کے باعث دھاندلی کر کے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں ہرایا وہ متحدہ اپوزیشن کی امیدوار تھیں اور اس وقت کا اتحاد جمہوری مجلس عمل ان کے خلاف تحریک کے موڈ میں تھا،ایسے میں 5-6 ستمبر کی شب کو بھارت کی طرف سے اچانک واہگہ کی بین الاقوامی سرحد پر حملہ کر دیا گیا اور یوں پاک بھارت جنگ چھڑ گئی،صبح ہی اس وقت کی حزبِ اختلاف کے تمام معزز اراکین، جن میں ولی خان، نوابزادہ نصر اللہ خان، مفتی محمود اور دیگر بڑے بڑے لوگ تھے، سب از خود چل کر اسلام آباد پہنچے اور اپنے تمام تر تحفظات کے باوجود ایوب خان کو حمایت کا یقین دلایا، پوری قوم اس طرح یکجان ہوئی کہ تو تو اور مَیں مَیں نہ رہا۔


اب بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی ویساہی عمل کیا اور ناجائز پارلیمانی حمایت کے ذریعے اپنی طرف سے کشمیر کا تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر اپوزیشن نے خدمات پیش کر دیں، دُکھ کا مقام ہے کہ پارلیمانی ناتجربہ کاری نے 1965ء جیسا موقع گنوا دیا، ہمارا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ جب کبھی کسی تنازعہ کو حل کرنے کے لئے کسی بھی اسمبلی یا پارلیمینٹ کا اجلاس بلایا جاتا تھا تو حزبِ اقتدار کی طرف سے اہم شخصیت،بلکہ قائد ایوان حزبِ اختلاف کی جماعتوں سے رابطہ کرتے اور ان کو اجلاس میں آنے کی دعوت دیتے،پھر جب اجلاس شروع ہوتا تو ابتدا ہی میں مختصر کارروائی کے بعد ایک قرارداد کمیٹی بنا دی جاتی جو دونوں طرف کے نمائندہ حضرات پر مشتمل ہوتی وہ قرارداد کا مسودہ تیار کر کے ایوان میں پیش کرتی،اس پر اراکین کی رائے لی جاتی،ضرورت کے مطابق ترمیم بھی ہوتی اور پھر متفقہ طور پر منظور ہو جاتی،لیکن یہاں سب کچھ الٹ ہوا بلاول بھٹو نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس کا مطالبہ کیا تو جلدی میں یہ کر ڈالا گیا اور رسمی طور پر اعظم سواتی نے فون پر رابطے کئے،حالانکہ یہ تو مطالبہ ہی اپوزیشن کا تھا۔بہرحال یہاں پھر ناتجربہ کاری کا مظاہرہ ہوا اور قرارداد کے لئے مروجہ طریقہ اختیار کرنے کی بجائے وزیر پارلیمانی امور نے خود ہی قرارداد پیش کر دی،جس پر جلد ہی نشان دہی ہو گئی کہ بھارتی عمل جو370 کے ساتھ کیا گیا،اس کا حوالہ موجود نہیں، اس کی تائید خود شیخ رشید نے بھی کی، جواب میں اعظم سواتی بوکھلائے نظر آئے اور اسی بوکھلاہٹ میں کہہ گذرے کہ اوپر سے کہا گیا تھا۔


اب اگر اس سے مراد اسی سے لی جائے جس کے بارے میں عام تصور ہے تو پھر ان کا ویژن تو بہت واضح ہے۔اس اجلاس اور قرارداد سے پہلے ہی ان سے مشاورت کر لی جاتی، کور کمانڈرز کانفرنس نے جو موقف اختیار کیا وہ حقیقی ہے اور اسی کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔اگر حکمران جماعت، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے موقف کے مطابق بات کی گئی تو بھارت کی بالادستی اور موقف تسلیم کرنا ہو گا،کور کمانڈرز کانفرنس نے جہاں کشمیریوں کی کھل کر حمایت کی وہاں یہ بھی واضح کر دیا”ہم نے کبھی بھی آرٹیکل370 اور35-A کو تسلیم نہیں کیا۔ یہی پاکستان کا اصل موقف اور نقطہ نظر ہے۔اگر ہم یہ کہتے رہے کہ بھارت نے یہ آرٹیکل ختم کر کے غلط کیا اور یوں پس منظر میں ان کی بحالی کا مطالبہ نظر آیا تو ہم بھارت کی اس حیثیت کو تسلیم کرنے کا بہانہ دیں گے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھارتی آئین نے دی اور کشمیر بھارت ہی کا حصہ ہے، جسے اب خصوصی اہمیت کے آرٹیکل ختم کر کے بھارت کے انتظامی کنٹرول میں لے لیا گیا ہے،حالانکہ کور کمانڈرز کانفرنس کا موقف واضح ہے کہ بھارت کے اس موقف کو بھی کبھی تسلیم نہیں کیا۔کشمیر(مقبوضہ) متنازعہ تھا اور متنازعہ ہے۔بھارت نے اسے ضم کر لینے کا جو اقدام کیا وہ خود ان کے اپنے آئین، سلامتی کونسل کی قراردادوں، شملہ معاہدہ اور قرارداد لاہور کی بھی خلاف ورزی ہے کہ ہر جگہ کشمیر ”متنازعہ“ ہے۔


ہم نے4اگست کے اپنے کالم میں بھارتی جنتا پارٹی،نریندر مودی اور بھارتی دانشور حضرات کے خیالات کا ذکر کر کے کہا تھا کہ مودی سے خیر کی توقع عبت ہے اور مودی نے دو دن بعد ہی اسے ثابت کر دیا، جبکہ ہمارے وزیر خارجہ کچھ نہ کچھ ہونے کا ذکر کرتے رہے،لیکن دُنیا بھر اور بھارت کے میڈیا میں آنے والی خبروں پر بھی دھیان نہ دے سکے،ہماری گذارش ہے کہ اب بھی پارلیمانی روایت پر عمل کیا جائے۔اپوزیشن کو ہر قدم پر اعتماد میں رکھا جائے جو سات رکنی کمیٹی بنائی، اس میں اپوزیشن کے ایک رکن کی گنجائش کیوں نہیں تھی؟ براہِ کرم!تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں، قومی اتفاق رائے پیدا کریں اور واضح موقف اختیار کریں جوکور کمانڈرز کانفرنس کا اعلامیہ ہے،ہم سب ایک ہیں۔

مزید :

رائے -کالم -