سوویت اتحاد اور رسوم و رواج
دسمبر1991ءمیں پندرہ ریاستوں میں بٹ جانے کے بعد بھی سابقہ سوویت یونین کا وارث ملک روس رقبے کے لحاظ سے دنیاکا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ماسکو میں رات کے بارہ بج رہے ہوں تو مشرقی سرحد کے قریب واقع شہر ولاڈی واسٹک میں صبح کے گیارہ بجے ہوں گے۔ ایک کروڑ اکہتر لاکھ مربع کلو میٹر پر پھیلے اس وسیع و عریض ملک میں مختلف عقیدوں، قومیتوں اور ایک اندازے کے مطابق سو سے زائدنسلوں کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں کی رسم و رواج اور توہمات کی دنیا بھی دلچسپ ہے۔ یہاں ستر سال سے زیادہ کمیونزم رائج رہا۔ اُس وقت لادینیت کو ریاست کی سرپرستی حاصل تھی اور مذہب کو عوام کے لئے افیون قرار دے کر پسِ پُشت ڈالا گیا تھا۔ لوگ ریاستی جبر کے خوف سے عبادات اور مذہبی رسومات کی ادائیگی سے کتراتے تھے۔ وےسے انسانی ذہن میں ایک روحانی تشنگی تو رہتی ہے اور وہ یہاں بھی رہی جس کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہا۔
مثال کے طور پر مرکزی ایشیائی ریاست ازبکستان میں مسلمان کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ اُٹھاتے جیسے دعا پڑھ رہے ہوں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہاتھ اُٹھانا ایک رسم رہ گیا تھا۔ تاجکستان کے ایک باشندے نے ہمیں بتایا کہ کمیونزم کے زمانے میں وہ رمضان میں روزے رکھتا تھا لیکن کسی کو نہیں بتاتا۔ پھر میخائل گوربچوف کا زمانہ آیا اور جب پابندیاں اُٹھنے لگیں تب اُس نے اپنے ساتھیوں کو بتانا شروع کیا کہ وہ روزے سے ہے۔ اس پر ایک ساتھی نے مذاقاً کہا کہ ”جب لوگ منہ کھولنے لگے تو آپ نے منہ بند کر دیا“۔ خوف، خواہشات اور جبر کے ماحول میں مذہبی فرائض کی ادائیگی مشکل تھی لیکن رسوم و رواج اور توہمات پر یقین رکھنے پر قدغن نہیں لگ سکتا تھا۔کسی معاشرے میں رسوم و رواج جو تاریخی طورپر مخصوص حالات کے تحت وجود میں آتے ہیں اور رفتہ رفتہ عوام کے ذہنوں میں گھرکر لیتے ہیں بظاہر تو فرسودہ اور بے ہودہ لگتے ہیں لیکن یہ ایک قوم کی ذہنیت اور مجموعی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ آئیے روس میںچند رسومات اور توہمات پر نظر ڈالتے ہیں جو کمیونزم کے دور میں بھی نہ مٹ سکے بلکہ کچھ تو اُس دور کی پیداوار ہیں۔
اہلِ روس نظر بد پر اتنا یقین رکھتے ہیں جتنا ہمارے ہاں، ہندوستان، ایران، ترکی اور عرب دنیا میں رکھا جاتا ہے۔ کسی کا حال پوچھیں تو جواب دیگا ”نارملنا“ یعنی ”بس گزر رہی ہے“۔ کبھی اچھا ےا بہت اچھانہیں کہے گا۔وہ ڈرتاہے کہ اچھا کہنے سے کل بُرا وقت آجائے گا۔ آپ یہ دیکھیں کہ 1961ءمیں دنیا کا پہلا شخص جوخلا میں پہنچا وہ روسی خلا باز ’ےو ری گاگاریں‘ تھا۔ جب اُس سے مواصلاتی رابطہ پر پوچھا گیا کہ کیسے ہو تو اُس نے جواب دیا ’نارملنا‘۔ اتنی بڑی خوشی کے موقع پر بھی اُس نے خوب یا بہت خوب نہیں کہا۔ ’نارملنا‘ کہنا ہر روسی باشندے کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ روس میں نوزائدہ بچوں کو نظربد کے خوف سے ہر ایک کو نہیں دکھاتے۔ ویسے بھی سوویت ےونےن کے زمانے میں حفظانِ صحت کے اصولوں کے پیش نظر جن ہسپتا لوں میں بچوں کی ولادت ہوتی وہاں والدین کے علاوہ کسی کو اندر جانے نہیں دیتے تھے کہ کہیں زائر جراثیم اندر نہ لے جائیں۔
کئی دنوں تک زچہ و بچہ ہسپتال میں رہتے اور جب ڈاکٹر اُن کی صحت کے بارے میں اطمےنان کر لیتا تب انہےں گھر جانے کی اجازت ملتی، لےکن اتنا صبر کون کرتا؟ رشتہ دار بچے کی ولادت کی خوشی منانے ہسپتال پہنچ جاتے۔ وہ ہسپتال کے اندر تو نہیں جا سکتے تھے لیکن ماں بچے کو کھڑکی کے قریب لے آتی اور وہاں سے رشتہ داروں کو دکھاتی جو نےچے بوتل کھول کر بچے کی صحت کے جام چڑھاتے۔ یہ بچہ درشن پانچویں چھت سے بھی ہوتا تھا۔ہمارے ہاں اگرکالی بلی کسی کا راستہ کاٹ لے تو وہ شخص واپس آ جاتا ہے ورنہ بدقسمتی پورا دن اُس کی راہ تکتی رہتی ہے۔ اہل ِروس بھی کالی بلی دیکھ کر راستہ موڑ لیتے ہیں۔ یہ رسم کہاں سے آئی؟ کہا نہیں جا سکتا۔ ہو سکتا ہے راستے پر جانے والے کے لئے تنبیہ ہو کہ جہاں بلی ہو وہاںاور جانور بھی ہوسکتے ہیں اور وہاں سے گزرنے والا ہوشیار و بیدار ہو کر چلے نہ کہ اُونگھتا اور جھومتا رہے۔
ہمارے ہاں اےک اور تو ہم ےہ ہے کہ اگرکوئی کسی بچے کے اُوپر سے قدم اُٹھائے تو بچے کا قد نہیں بڑھے گا۔ یہ سوچ روسی باشندوں میں بھی عام ہے۔ اگر کوئی بے خیالی میں قدم اُٹھاتا ہے اور اُسے پتہ چلتا ہے کہ نیچے چھوٹابچہ لیٹا ہے تو واپس اپنی جگہ آجائے گا۔ بچوں کی بات چلی تو یہ بھی دیکھیں کہ ہم چھوٹے بچوں کو جب ڈراتے ہیں تو کہتے ہیںبلا (پشتو میں بَو) آجائے گا۔ روسی اُن کو ’بابا ےا گا ‘ سے ڈراتے ہیں جو ایک طاقتور اور خونخوار کردار ہے۔ اگرچہ دونوں کا کوئی وجود نہیں ہے نہ بابا ےا گا کا اور نہ بلا یا بَو لیکن ہزاروں میلوں کی مسافت، موسموں کے اختلاف، زبانوں کے فرق اور تہذیبوں کی دوری کے باوجود توہمات کی شکل میں سوچ کی ہم آہنگی باعث حیرت ہے۔
مغربی دنیا میں جب کوئی شخص کسی بد قسمتی یا تکلیف کا ذکر کرتا ہے اور اس سے بچے رہنے پر مسرت کا اظہار کرتا ہے تو قریب کسی میز یا لکڑی سے بنی چیز کو انگلی سے ٹھوکتا ہے اور .... ”ٹچ ووڈ“ کہتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کہے کہ اِس سال سردیوں میں وہ تین دفعہ برف پر پھسلا تو دوسرا میز پر انگلی ٹھوک کر کہے گا ”ٹچ ووڈ“ میں نہیں گرا۔ اہلِ روس بھی اسی طرح کرتے ہیں۔ ہم پشتو میں ایسے موقعوں پر کہتے ہیں کہ ”شیطاں تیرے کان بند ہوں“ یعنی اگر شیطان یہ بات سن لے گا تواُسے ہماری بدقسمتی میں بدل دے گا، اس لئے شیطان کو ہماری خوش نصےبی کا علم نہ ہوتو بہتر ہے۔اکثر مغربی مما لک میں شیشہ ٹوٹنا نیک شگون نہیں سمجھا جاتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی کے ہاتھ سے شیشہ ٹوٹ جائے تو اُسے نقصان پہنچے گا۔ یہ وہم روس میں بھی پایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں پشتونوں کے نزدیک سال میں پندرہ دن مخصوص ہیں جن میں اگر شیشہ ےا برتن وغیرہ ٹوٹ جائے تو پھر اُس طرح کی سات چیزیں ٹوٹیں گی۔ اگر کسی کو حادثہ پیش آئے تو سات حادثات اُسے پیش آئیں گے۔ اُن دنوں کو ہم پشتو میں ’صَفَرہ‘ یا ’ گل شکرہ‘ کہتے ہیں۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ جنات کی کارستانیاں ہوتی ہیں جو پندرہ دنوں کے لئے زمین پر اُتر چکے ہوتے ہیں اور اکثر اندھے اور بہرے ہوتے ہیں۔
روس میں جب کسی کے ہاں مہمان آئے تو میزبان گھر کے دروازے کی آڑ سے اُس سے کبھی ہاتھ نہیں ملائے گا۔ وہ یا تو خود دروازے سے باہرنکل کر یا مہمان کو گھر کے اندرلا کر ہاتھ ملائے گا۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ دروازے کے آر پارمصافحہ کرنے سے دوستی اور تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ روس چونکہ انتہائی سرد ملک ہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ میزبان باہر نکل کر مہمان سے ہاتھ ملائے یا مہمان کو اندر بلا کر مصافحہ کرے۔ دونوں صورتوں میں گھر کا دروازہ کھلا نہیں رہتا جو ٹھنڈے موسم میں رہنا بھی نہیں چاہیئے ورنہ گھر ٹھنڈا ہو جائے گا۔ یہ رسم اُس زمانے میں رائج ہوئی ہو گی جب لوگ شدید سردی میں لکڑیاں جلا کربڑی مشکل سے گھر گرم کرتے تھے تب دروازہ کھلا رکھنے سے فرق پڑتا تھا۔ سوویت یونین کے دور میں تو گھر کی گرمائش کا خوب انتظام تھا جو دیگر سہولیات جیسے ٹیلی فون اور بجلی کی طرح بلامعاوضہ مہیا کی جاتی تھیں۔ اسی طرح گرم پانی گھروں میں پورا سال چلتا سوائے دو ہفتوںکے، یکم سے پندرہ جون تک جن میں عام پانی استعمال کیا جا سکتا تھا۔
روس میں اگر کوئی لمبے سفر پہ جا رہا ہو تو سفر سے پہلے سب لوگ گھر کے باہر ایک دو لمحوں کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ سفر پر جانے والے شخص کو موقع ملتا ہے کہ ےاد کرے کہ جو چیزیں سفر پر لے جانی تھےں اُن میں سے کچھ بھول تو نہیں گیا ہے۔ دراصل روس کے لوگ سوچتے ہےں کہ گھر مےں کوئی چےز رہ جائے تو ا±سے لےنے کے لئے واپس لوٹنا برا شگون ہے۔ مسافر کو چاہیئے کہ سفر پر جانے سے پہلے اپنے سامان کو غور سے دیکھ لے اور پھر سفر شروع کرے ۔ یہ رسم بھی ہے کہ نئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے وہاں بلی چھوڑ تے ہیں۔ بظاہر تو یہ توہم ہے لیکن اس میں دانشمندی بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نئے گھر میں کیڑے مکوڑے گھسے ہوں یا پانی گرا ہو یا بجلی کا تار لٹک رہا ہو۔ بلی کے داخل ہونے سے گھر کے مکین آہستہ آہستہ پورے گھر کا جائزہ لے لیتے ہیں اور پھر اندر چلے جاتے ہیں۔ ویسے نئے گھر میں داخل ہونے کے لئے جلدی بھی مناسب نہیں اور رات کی تاریکی میں بھی داخل ہونے سے احتراز کرنا چاہیئے۔ان رسومات اور توہمات کے علاوہ اہلِ روس کی کچھ عادتیں سوویت یونین کے زمانے میں بن چکی تھیں۔ جیسے کسی سے بات کرتے ہوئے منہ اُس کے کان کے انتہائی قریب لیجاناتاکہ کوئی دوسرا سن نہ لے۔
وہ ڈرتے تھے کہ کوئی شخص حکومت کو ایسی بات نہ پہنچائے جس پر اُسے گرفتار کیا جا سکتا ہو۔ اُس زمانے میں معمولی باتوں پر گرفتاریاں ہوتیں، اس لئے لوگ ڈرتے تھے۔ چائے پیتے ہوئے چمچہ پیالی میں چھوڑنا اور گھونٹ لیتے ہوئے آنکھ بند کرنے کی روسی عادت ہماری سمجھ میں نہ آئی۔ معیشت کے بارے میں معمول تھا کہ بازار میں ایک ہی چیز دکانوں میں مختلف قیمتوں پر ملتی۔ مثال کے طور پر ایک ہی برانڈ کے سگریٹ کا ڈبہ ایک دکان میں ایک ہزار روبل میں ملتا تو ساتھ ہی دوسرے دکان پر بارہ سو میں دستیاب ہوتا۔ مال دونوں کا بکتا۔ خریداروں کو سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی اصول کہ سستی دکان سے خریداری میں فائدہ ہے ابھی ذہن نشین نہیں ہوا تھا۔ اُس زمانے میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ روس سے گئے دو دوست پیرس میں ملے۔ دونوں نے ایک طرح کی ٹائیاں پہنی تھیں۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا ’یہ ٹائی کتنی قےمت میں خریدی ہے؟‘ ”سو فرانک میں“۔ دوسرے نے جواب دیا۔ ” یہ تو سامنے والی دکان پہ 125فرانک میں ملتی ہے اور میں نے وہاں سے خریدی ہے“ پہلے دوست نے فخریہ انداز میں کہا۔
رسوم و رواج، عادات، توہمات اور اَدب سے کسی قوم کے مزاج کا ادراک ہوتا ہے۔ یہ بات اہل ِروس کے بارے میں بھی سچ ہے۔ ان کے ہاں رہنے اور زندگی کا لطف اُٹھانے کے لئے اُن کو سمجھنا پڑتا ہے لیکن یہ اتنا بھی آسان نہیں اسی لئے تو برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے ایک دفعہ کہا تھا کہ روس ایک پہیلی ہے جو پراسراریت کے پردے میں چھپے ہو ئے ایک معمے کے اندر بند ہے، لیکن اَب شاید ایسا نہیں ہے۔ زمانہ بدل گیا ہے۔
روسی شراب واڈکا سے متعلق بھی بہت سارے توہمات ہیں۔ اِسے پیتے ہوئے اگر کسی کا نام لیا جائے اور اُس کے صحت کے نام جام اُٹھایا جائے تو اُسے صحت ملتی ہے اور دوستی کے نام کی جائے تو دوستی بڑھتی ہے۔ ےہ تصور پوری مغربی دنےا مےں بھی رائج ہے۔ یعنی پیئے ایک اور صحت بنے دوسرے کی۔ میں نے روس جا کر اُس زمانے کی عوامی گاڑی ژگولی ’لاڈا‘ خریدی تو ہمارے سفارتخانے میں کام کرنے والی بزرگ خاتون ’زینا‘ نے مجھے مبارکباد دی اور ساتھ ہی مشورہ دیا بلکہ زور دے کر کہا کہ گاڑی کے اُوپر واڈکا ضرور چھڑکنا تاکہ گاڑی ٹھیک رہے اور کسی حادثے کا شکار نہ ہو۔ کسی مرحوم دوست کی برسی منانی ہو تو اُس کی قبر پر جاکر واڈکا چھڑکا جاتا ہے۔ واڈکا کی بوتل کھل جائے تو پھر اسے خالی کرنا ہوتا ہے۔ جام پہ جام چڑھایا جاتا ہے اور پینے پر اصرار جاری رہتا ہے لیکن اگر مہمان کو چائے پیش کی جائے تو اصرار نہیں کرتے۔ کہتے ہیں ”چائے واڈکا تو نہیں کہ زیادہ پی جائے“۔ اسی طرح واڈکا میں کوئی اور مشروب ملانا بد ذوقی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی دوسرا مشروب پینا پڑ ے تو دونوں کا علیحدہ علیحدہ گھونٹ لے کر منہ میں اتصال کے مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ ایک بات واڈکا کے بارے میں مشہور ہے جو میں نے مختلف موقعوں پر سنی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب روس کے رہنماﺅں نے فیصلہ کیا کہ روس کو ایک مذہب اختیار کرنا چاہیئے تو اُنہوں نے اسلام پسند کیا کہ یہ اچھا مذہب ہے لیکن جب دیکھا کہ اِس میں شراب نوشی کی ممانعت ہے اور واڈکا پینے کی اجازت نہیں تو ڈر گئے اورعیسائیت ریاست کے مذہب کے طور پر قبول کی۔
میں ایک دفعہ ماسکو میںبس میں بیٹھا تھاجو ایک سٹاپ پر رکی۔ وہاں تین نوجوان کسی بات پر بگڑ گئے اور ایک دوسرے پر مکوں کی بارش کرنے لگے۔ بس کا ڈرائیور چند لمحوں کے لئے رکا رہا تو ایک دو مسافروں نے اُسے ڈانٹا کہ بس کیوں روکی ہے، چلتا کیوں نہیں؟ اسی طرح اگر کہیں حادثہ پیش آتا اور کوئی زخمی ہو کر سڑک پر گر جاتا تو لوگ پولیس کا انتظار کرتے کہ وہ زخمی کو ہسپتال پہنچائیں گے۔ اسی طرح سرد موسم میںکئی لوگ شراب نوشی کر کے رات کو برف میں پھسل جاتے تو صبح متعلقہ سرکاری عملہ اُن کو برف سے نکالتا۔ لڑائی میں لوگ بیچ بچاﺅ کرکے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ شاید لوگ ڈرتے کہ پولیس اُن کو بعد میں تنگ نہ کرے۔ ہاں اگر کوئی بڑی عمرکی بزرگ خاتون کہیں لڑائی جھگڑا دیکھتی تو آجاتی اور جھگڑنے والوں کو ڈانتی۔ اگر کسی نے چھوٹے بچوں کو صحیح گرم کپڑے نہیں پہنائے ہوتے تو بزرگ خواتین اُن کو ڈانٹتیں۔ کوئی بس میں یا زیر زمین ریل ’ میٹرو‘ میں پیسے مانگتا تو بہت سے لوگ اُس کی مدد کرتے اور کہیں آپ کی گاڑی خراب ہو جاتی تو راہ گیر آپ کی مدد کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ دل سے سخت نہیں تھے نظام کے ہاتھوں مجبور تھے۔