کاروباری سرگرمیاں، احتیاط کے ساتھ
حکومت نے پیر کے روز سے جو کاروبار کھولنے کا اعلان کیا ہے،اس سے معمولاتِ زندگی بڑی حد تک معمول پر آ جائیں گے، تاہم ”پری کورونا“ دور کی جانب مکمل واپسی ابھی نہیں ہو گی، سکول بدستور بند رہیں گے اور15ستمبر کو کھولنے کے فیصلے پر حکومت قائم ہے اور اِس سلسلے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے مالکان کا موقف تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں، مالکان بھی یہ اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ہر چہ بادا بار کہتے ہوئے اپنے ادارے 15 اگست سے کھول دیں گے، سندھ حکومت نے البتہ اعلان کیا ہے کہ اگر کورونا کیسز بڑھے تو سکول و کالج15 ستمبرکو بھی نہیں کھلیں گے، شادی ہال بھی اسی تاریخ سے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے، حکومت نے سیاحتی مقامات بھی آج سے کھولنے کا اعلان کیا ہے، ٹرینیں پہلے سے چل رہی ہیں،جو بند ہیں اب وہ بھی چل پڑیں گی، طیارے بھی محو ِ پرواز ہو جائیں گے، یورپی ممالک میں پی آئی اے پر پابندیوں کی وجہ سے متبادل انتظامات کئے گئے ہیں، جن میں دوسری ائر لائنوں کے ساتھ کاروباری ڈیل ہو رہی ہیں۔ اندرونِ ملک پروازیں بھی بڑی حد تک اڑان بھریں گی، میٹرو بسیں بھی چل پڑیں گی، ہوٹل اور ریستوران بھی کھل جائیں گے، کاروباری اوقات کار پر جو پابندیوں عائد تھیں وہ بھی نرم کر دی جائیں گی، بیوٹی پارلر اور جسمانی ورزش کے جم بھی آباد ہوں گے، سینما گھروں اور تھیٹروں میں بھی رونقیں لگ جائیں گی، بعض کھیلوں کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔
پابندیوں کے خاتمے اور کاروبار کھولنے کا اعلان اِس امید پر کیا گیا ہے کہ کورونا کے نئے کیسز بہت کم ہو گئے ہیں اور یہ رجحان برقرار رہے گا،نئے کیسز نہیں بڑھیں گے اسی توقع پر بعض بڑے ہسپتالوں میں خصوصی طور پر بنائے گئے کورونا وارڈ بھی بند کر دیئے گئے ہیں، کیونکہ اِن وارڈوں میں مریض نہیں آ رہے تھے۔ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو ہسپتالوں کی معمول کی سرگرمیاں بحال کرنے کے لئے کہہ دیا گیا ہے۔ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ کورونا کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں، احتیاطی تدابیر ناگزیر ہیں۔ وبا کا پھیلاؤ روکنے کے لئے عوامی بیداری مہم تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، کاروبار کھولنے کا فیصلہ اگرچہ اچھا ہے تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام الناس احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور حکومت بھی ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، عوام کو دراصل جو بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس ابھی ختم نہیں ہوا، نہ ہی کوئی ایسی تدبیر کارگر ہوئی ہے،جس کی وجہ سے اس کا مقابلہ کامیابی سے کیا جا سکے،زیادہ سے زیادہ جو کچھ کیا گیا ہے وہ احتیاط اور احتیاطی اقدامات ہی ہیں،اِس لئے جب تک اس وائرس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا یا پھر حفظ ِ ماتقدم کے لئے ویکسین تیار ہو کر آسانی سے دستیاب نہیں ہو جاتی، اس وقت تک ایس او پیز کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہو گی،اِس لئے نئے کیسز اگرچہ کم تعداد میں رپورٹ ہو رہے ہیں تاہم ملک بھر میں آٹھ سو سے زیادہ کیس تو جمعرات کو بھی سامنے آئے ہیں اور صرف لاہور میں نئے کیسز ایک سو سے زیادہ رہے،حالانکہ گزشتہ ایک ہفتے سے یہ تعداد مسلسل ایک سو سے کم چلی آ رہی تھی، اب اگر دوبارہ تعداد بڑھی ہے جو اگرچہ اتنی زیادہ بھی نہیں تاہم اس سے یہ نتیجہ تو نکالا جا سکتا ہے کہ مزید کیس بھی آ سکتے ہیں۔گویا وبا کو محدود رکھنے کا گُر ابھی ایس او پیر پر عمل پیرا ہونے ہی میں پوشیدہ ہے،لیکن بے احتیاطی کے مناظر بھی بہرحال دیکھے جا رہے ہیں یہ شاید طویل پابندیوں سے اُکتا کر ایک طرح کا وقفہ لینے کی کوشش ہے، تاہم دُنیا بھر کے ماہرین اب بھی خبردار کر رہے ہیں کہ جہاں جہاں بھی تعداد کم ہو رہی ہے یا مریض صحت یاب ہو رہے ہیں وہاں بھی ضروری ہے کہ ایس او پیز کا لحاظ رکھا جائے۔
پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں وبا جس تیزی سے پھیل رہی تھی اس کا سلسلہ نہ صرف رُک گیا، بلکہ صحت یاب ہونے والوں کا تناسب بھی بڑھ گیا، اب حوصلہ افزا بات یہ ہوئی کہ جہاں مرض سے نجات پانے والوں کی تعداد بڑھی وہاں نئے کیسز کم ہو گئے ہیں یوں ایکٹو کیسز بھی بتدریج کم ہو رہے ہیں، لیکن کئی دن سے جو اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں، اُن کی جادوگری کا کرشمہ ہے یا کچھ اور کہ صحت یاب لوگ تو بڑھ رہے ہیں، نئے کیسز بھی کم ہو رہے ہیں،لیکن ایکٹو مریضوں کی تعداد ایک ہی جگہ رکی ہوئی ہے، حالانکہ یہ بھی کم ہونی چاہئے تھی،ہمارے خیال میں اعداد و شمار کی جانچ پڑتال زیادہ بہتر طریقے سے ہونی چاہئے، کیونکہ انہی کے تجزیئے کی بنیاد پر سارے فیصلے ہوتے ہیں اگر یہ ”بازی گر“ ہی دھوکا دیتے رہے تو نیک نیتی سے کئے گئے فیصلوں کا نتیجہ بھی مثبت نہیں نکلے گا، جو عالمی ادارے پاکستان کی کامیابی پر مبارکیں دے رہے ہیں وہ ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ٹیسٹوں کی تعداد کم نہیں ہونی چاہئے۔اگر مریضوں کی تعداد محض تھوڑے ٹیسٹوں کی وجہ سے سامنے آ رہی ہے اور ٹیسٹ بڑھنے کی صورت میں اضافے کا امکان ہے تو یہ صورتِ حال خطرناک ہو گی۔
دُنیا میں کورونا کیسز اب بھی بڑھ رہے ہیں، امریکہ، برازیل اور بھارت تینوں ممالک میں 50ہزار کیس(فی ملک) روزانہ سامنے آ رہے ہیں،اِس کا مطلب یہ ہے کہ وائرس کا خاتمہ نہیں ہوا، جن ممالک میں کمی ہوئی ہے وہاں وائرس دب گیا ہے اور ذرا سی بے احتیاطی سے اس کے دوبارہ سر اٹھا لینے کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا، پاکستان میں البتہ ایک حوصلہ افزا پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ آسٹریلیا میں تیار ہونے والی ایک ویکسین کے تجرباتی مراحل دو ہفتے میں شروع کئے جائیں گے۔ یہ ویکسین تین ماہ میں پاکستان میں دستیاب ہو سکے گی، دُنیا بھر میں ویکسینوں کے تجربات ہو رہے ہیں اور جانوروں کے بعد انسانوں پر دواؤں کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے ہزاروں افراد پر تجربات کئے جا رہے ہیں، کئی ممالک نے تو کامیابی کے دعوے بھی کر دیئے ہیں،لیکن یہ سب اپنی اپنی کامیابیوں کو مارکیٹ کرنے کے لئے ہیں،زمینی حقیقت یہی ہے کہ ویکسین ابھی تجربات کے مرحلے میں ہے،جب کامیابی ہو گی تب ہی یہ کہا جا سکے گا کہ وائرس کا مقابلہ کرنے کا مرحلہ شروع ہو چکا ہے،اِس لئے اس وقت تک ایس او پیز پر عملدرآمد کا سہارا ہی لینا ہو گا اور عوام الناس تک بہتر ابلاغ کے ذریعے انہیں قائل کرنا ہو گا کہ ابھی اطمینان کی گھڑی نہیں آئی۔ یہ ساعت اسی وقت آئے گی جب وائرس کا خاتمہ ہو گا یا مقابلے کے لئے ویکسین اور دوائیں تیار ہوں گی،اس وقت تک احتیاط ہی حل ہے اور اسے خیرباد کہہ کر دوبارہ پھیلاؤ کا رسک نہیں لیا جا سکتا۔