وطن کی خاطر
دروازے پر دستک ہوئی تو فوجی ریاض کھانستے ہوئے چار پائی سے اٹھے اور دروازہ کھول دیا۔باہر ان کا چھوٹا بیٹا ماجد کھڑا تھا،وہ اندر آگیا۔ اس وقت سورج غروب ہو چکا تھا اور مغرب کی سرخی چھائی ہوئی تھی۔
بہاولپور کے پاس ایک گاؤں میں فوجی ریاض اپنی بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے آرمی کی ملازمت سے ریٹائر ہوا تھا۔ اس نے سب بچوں کی شادیاں کر دی تھیں کچھ عرصہ پہلے ماجد کی شادی ایک اچھے گھرانے میں کردی لیکن ماجد کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کر رہا تھا، اسے فوجی ریاض نے گاؤں میں کریانہ کی دکان کھول دی تھی لیکن وہ اس پر بھی سیریس ہو کر نہ بیٹھتا جو کماتا خود ہی ہڑپ کر جاتا۔بیوی کو بھی کچھ نہ دیتا اب تو عنایہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے اسے بیٹی سے نواز دیا تھا۔
فوجی ریاض اور اس کی بیوی کشور سلطانہ اس کی طرف سے بہت پریشان رہتے۔ ماجد بہت جھگڑا لو طبیعت کا مالک تھا۔اس کی کسی سے نہ بنتی جبکہ بڑا بیٹا ساجد بہت فرمانبردار تھا۔ اپنا کماتا جس سے اپنے بیوی بچوں کا خرچہ چلا رہا تھا۔اس کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔
ماجد گھر میں آئے دن لڑ جھگڑ کر باہر آوارہ گردی کرتا رہتا۔فوجی ریاض اور اس کی والدہ کشور سلطانہ نے کافی دفعہ اس کی چھترول کی لیکن وہ پھر بھی باز نہ آتا۔
سب گھر والوں کو بے حد تنگ کیا ہوا تھا اس نے۔ آج بھی باہر سے گھوم پھر کر گھر آیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد فوجی ریاض نے اس سے کہا”بیٹے!اب تم خود باپ بن گئے ہو گھر کا خرچہ بہت مشکل سے چل رہا ہے اس لئے سیریس ہو کر کوئی کام کر لو، ہم کب تک بیٹھے رہیں گے۔ ایک دن ہمارا بھی بلاوہ آجانا ہے۔“
ماجد بولا!”ابو میرا ایک دوست ہے اس کا پلاسٹک بنانے کا کارخانہ ہے۔ اس کے ابو نے مجھے اپنی فیکٹری میں کام کرنے کو کہا ہے اور میں کل سے وہاں جاؤں گا۔“بیٹے آجکل حالات بہت خراب ہیں احتیاط سے جانا اور دل لگا کر کام کرنا۔“فوجی ریاض نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے ابو ویسے بھی فیکٹری ہنگاموں والی جگہوں سے کافی دور ہے، وہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔“ماجد نے اپنے ابوکو مطمئن کرتے ہوئے کہا۔اس طرح ماجد روز کام پر جانے لگا۔ آج اسے کام پر جاتے ہوئے چوتھا روز تھا۔
اس نے کہا کہ فیکٹری میں تنخواہ ماہواردی جاتی ہے لیکن اس نے تیسرے روز رات کو فوجی ریاض کے ہاتھ میں دس ہزار روپے رکھے تو وہ حیران ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ تمہیں دو روز کی اتنی تنخواہ دے دی،تو ماجد ٹال گیا۔فوجی ریاض کے دل میں شک پیدا ہو گیا کہ ماجد کہیں بْرے لوگوں کے ساتھ تو نہیں شامل ہو گیا۔
ایک روز ماجد صبح سویرے کام پہ چلا گیا۔اس کی ماں اور بیوی گھر کے کام کاج میں مصروف ہو گئیں۔ ابھی دس بجے تھے کہ ماجد لڑ کھڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور چار پائی پر گر کر بے ہوش ہو گیا۔ اس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی اور اس میں سے خون نکل رہا تھا۔
فوجی ریاض نے زخم پہ پٹی باندھی تاکہ خون زیادہ نہ نکلے۔پٹی باندھنے کے بعد فوجی ریاض نے اس کی بیوی سے کہا کہ اس کا خیال رکھو میں ڈاکٹر کو لے کر آتا ہوں۔لیکن ابھی وہ دروازے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ زور سے دستک ہوئی۔انہوں نے جلدی سے دروازہ کھولا باہر دو سپاہی اور ایک پولیس انسپکٹر کھڑے تھے۔وہ انہیں دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ انسپکٹر نے فوجی ریاض سے کہا جناب ہم ایک دہشت گرد کو تلاش کررہے ہیں،کوئی آدھا گھنٹہ قبل دہشت گردوں نے مارکیٹ میں فائرنگ کی تھی جس سے کئی آدمی ہلاک اور بہت سارے زخمی ہو گئے ہیں۔
ہماری گشت پر مامور ٹیم ادھر سے گزر رہی تھی،دہشت گردوں نے ہمیں دیکھا تو فرار ہو گئے۔اس میں سے ایک دہشت گرداسی گلی میں داخل ہوا ہے۔اگر آپ کے گھر میں آیا ہے تو بتائیں،اس کی ایک ٹانگ میں گولی لگی ہے۔فوجی ریاض نے انسپکٹر کی بات سنی تو گرتے گرتے بچے، انہیں زمین و آسمان گھومتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ان کا شک درست نکلا۔ان کا بیٹا ان بْرے لوگوں میں ملوث تھا۔
وہ اس کی کمائی کو حلال روزی سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے تو خود لوگوں کی حفاظت کا پیشہ اپنایا تھا۔پاک آرمی کے بہادر جوان بن کر ملک وقوم کی خدمت کی اور ان کا بیٹا کس روش پہ چل نکلا، وہ لوگوں کی جانیں لے رہا تھا۔ایک طرف بیٹے کی محبت تھی تو دوسری طرف وطن کی سلامتی کچھ دیر دونوں میں کشمکش ہوتی رہی۔آخر بیٹے کی محبت پر وطن کی محبت غالب آگئی۔
فوجی ریاض نے انسپکٹر سے کہا جناب میرے گھر میں ایک دہشت گرد چھپا بیٹھا ہے، اسے گرفتار کرلیں۔انسپکٹر نے اندر داخل ہو کر ماجد کو جواب ہوش میں آچکا تھا اور درد سے کراہ رہا تھا اسے گرفتار کر لیا۔ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو فوجی ریاض جیسے لوگوں کی اشد ضرورت ہے، تب ہی ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ بن سکتاہے۔