برکت
رمضو سبزی والے نے ٹھیلے کو جھاڑ بچھاڑ کر صاف کیا اور پھر ترتیب سے اس پر سبزیاں رکھنے لگا۔لمبی سرخ گاجریں،سفید اور جامنی شلجم،درمیان میں مٹر کی پھلیاں گہرے جامنی رنگ کے صاف چمک دار بینگن جن کے سر پر تاج تھا،ہلکے سبز رنگ کا گھیاکدو،دل للچانے والے سرخ ٹماٹر، تازہ میتھی اور پالک غرض ٹھیلا سبزیوں کی عجیب بہار دکھا رہا تھا۔ہرا دھنیا اور سبز مرچیں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی تھیں۔ تازہ صاف ستھری پھول گوبھی کھلی پڑی تھی۔سنہری پیاز ادرک کی گانٹھیں اور لہسن کی کلیاں مسکرارہی تھیں۔ کڑوے کریلے ترتیب سے رکھے تھے۔ ہری ہری بھنڈیوں نے بھی اپنی جگہ بنارکھی تھی اور پودینے کی خوشبونے بھی سماں باندھ رکھا تھا۔رمضو نے خوش ہوکر ٹھیلے پر نگاہ دوڑائی۔ ہرے بھرے ٹھیلے نے اسے مطمن کردیا۔ پھر اس نے سبزیوں پر پانی کا چھڑکاؤ کیا اور سبزیاں کھل اْٹھیں۔ رمضو نے اللہ کا نام لیا اور ٹھیلا آگے بڑھادیا۔ ترازو کے ساتھ ہی لکڑی کی صندوقچی رکھی تھی جس میں چند نوٹ اورکچھ ریز گاڑی پڑی تھی،آلو لے لو،پالک لے لو،ہرا پیاز ہے،پھول گوبھی ہے،لال لال ٹماٹر ہے،سفید شلجم ہے،گول والے بیگن ہیں،رمضو نے گلی سے نکلتے ہوئے آواز لگائی۔ایک گلی سے دوسری سے تیسری گلی غرض رمضو کا سفر جاری تھا۔ اسی طرح صدائیں بھی۔رمضو نے اپنا ترازو اس طرز کا بنالیا تھا کہ بظاہر ہر تول پوری ہوتی لیکن حقیقت میں وزن کم ہوتا تھا۔اس کے علاوہ رمضو دوسرے طریقوں سے بھی بے ایمانی کرتا تھا۔ دوپہر تک ٹھیلے سے آدھی سے زیادہ سبزی بِک چکی تھی اور اس کے ساتھ صندوقچی بھی چھوٹے بڑے نوٹوں اور سکوں سے بھررہی تھی۔رمضو دل ہی دل میں حساب کتاب کرکے خوش ہورہا تھا مگر صندوقچی میں موجود برکت بالکل مایوس تھی۔ جب رمضو نے بے ایمانی کا پہلا سکہ صندوقچی میں ڈالا تو برکت دکھ سے چل اْٹھی مگر جب حسب معمول رمضو بے خبر رہا،برکت سسکتی رہی،بے ایمانی کے چند نوٹوں نے آہستہ آہستہ برکت کو کھالیا، برکت ختم ہوگئی لیکن رمضو کو خبر بھی نہ ہوسکی۔شام ڈھلنے سے پہلے وہ گھر پہنچ گیا، خالی ٹھیلا اس نے صحن کے ایک کونے میں کھڑا کیا اور صندوقچی بیوی کے حوالے کی اور خود ٹی وی چلا کر پاس پڑی چارپائی پر نیم دراز ہوگیا۔
کل مال لانے کے لیے پیسے چھوڑ کر باقی اپنے خرچ کے لیے رکھ لو رمضو نے بیوی کو مخاطب کیا،بیوی پہلے ہی نوٹ اور ریز گاری الگ کرچکی تھی۔ہو نہہ خرچ پورا نہیں ہوتا اتنے پیسوں میں بڑی مشکل سے گزارا کرنا پڑا ہے۔ بچے دونوں بیمار پڑگئے ہیں تو کیا کروں سارا دن محنت کرتا ہوں۔ گلی گلی گھوم پھر کر جوتیاں چٹخاتا ہوں پھر بھی گھر کا خرچ پورا نہیں ہوتا۔ رمضو نے چِڑ چِڑے پن سے جواب دیا۔میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ خیرو برکت ہی نہیں رہی کسی چیز میں، ہر چیز میں سے برکت ختم ہوگئی ہے۔ میاں کو غصے میں آتا دیکھ کر وہ دھیرے سے بولی۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ رمضو کی بے ایمانی کی وجہ سے برکت نہیں رہی تھی،مہنگائی جو بڑھ گئی ہے، حکومت بھی کچھ نہیں کررہی ہے، عوام بے چاری کیا کرے،رمضو نے ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے تبصرہ کیا اوربیوی سرہلاتے ہوئے کھانا نکالنے چل دی۔