چین کیساتھ سرحدی تنازعہ، مودی اپنے مشیر اجیت ڈوول اور جنرل پبن راوت سے نالاں لیکن عہدے سے ہٹایا کیوں نہیں جارہا؟ حیران کن دعویٰ منظرعام پر
نئی دہلی (ویب ڈیسک ) مقامی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ اطلاعات ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے چین سے سرحدی تنازع پر قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بپن راوت کی کارکردگی سے شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے ، برطرفی اور تبادلوں جیسے صاف دکھائی دینے والے اقدامات سے گریز کیا گیا ہے کیونکہ ایسے اقدامات اس بات کا ثبوت ہونگے کہ چین سے معاملات میں کوتاہی کا باضابطہ اعتراف کرلیا گیا ہے ۔
روزنامہ دنیا کے مطابق بھارتی دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اپریل کے وسط میں بھارتی سیٹلائٹ امیجری کے علاوہ سگنلز اور ہیومن انٹیلی جنس کے ذریعے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ ایل اے سی کے پار چین بڑی فوجی مشق کر رہا ہے جس میں پیپلز لبریشن آرمی کے ہزاروں سپاہی شریک ہیں۔ لداخ میں ریزرو فارمیشنز کو متحرک کرنے کا عمل اس سال کورونا کی وباکے پیش نظر منسوخ کردیا گیا جس کا چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے خوب فائدہ اٹھایا۔ سی ڈی ایس اور این ایس اے نے مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو بتایا کہ سرحد عبور کرنے کے انفرادی نوعیت کے اکا دکا واقعات سے وہ خود نمٹ لیں گے ۔ یہ سب کچھ 12 مئی تک ہوتا رہا جب چین کے دو فوجی ہیلی کاپٹرز نے پنگانگ جھیل کے پار بھارتی کمانڈنگ جنرل کو لے جانیوالے ہیلی کاپٹر کا تعاقب کیا۔
بحران کو پہلی بار اس وقت باضابطہ طور پر تسلیم کیا گیا جب 17 یا 18 مئی کو چینی فوجیوں کے ایک جتھے نے پنگانگ جھیل کے مشرقی کنارے پر بھارتی علاقے میں آٹھ کلو میٹر تک گھس کر بھارتی فوجیوں کو دوبدو لڑائی میں بہت مارا، ان میں سے 72 فوجیوں کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ یوں لیہ میں واقع چودھویں کور کے ہیڈ کوارٹرز میں پلاننگ شروع ہوئی۔ ایک سینئر افسر نے اس موقع کہا جو کچھ کارگل میں ہوا وہ اپنے آپ کو دوہرا رہا ہے ۔ چار دن بعد 22 مئی کو آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے لیہ کا دورہ کیا۔ 24 مئی کو مشرقی لداخ کیلئے کمک کی منظوری دی گئی۔ تب تک گلوان میں تصادم کو کم و بیش تین ہفتے گزر چکے تھے ۔ اس کے باوجود پارٹی ترجمان (بی جے پی)، اسٹیبلشمنٹ سے دوستانہ رویہ رکھنے والے جرنیل اور ‘‘گوڈی میڈیا’’ ٹی وی پر بحث پر زور دیتے رہے اور اخبارات کیلئے ایسے مضامین لکھے جاتے رہے جن میں ‘‘سب اچھا ہے ’’ کی گردان کی گئی ۔ 15 جون کو 20 بھارتی فوجیوں کو چینی فوجیوں نے مار ڈالا ،تب بھارت کی سکیورٹی اشرافیہ کو صورتحال کی سنگینی کا حقیقی اندازہ ہوا۔ اس کے بعد بھی نئی دہلی کو صورتحال کی حقیقی سنگینی کا مکمل اندازہ نہ ہوسکا، اس کیلئے معاملات تاریک ہی رہے ۔ 19 جون کو وزیر خارجہ نے آل پارٹیز اجلاس میں چینی در اندازی کو مسترد کردیا۔
وزارت دفاع نے انٹیلی جنس کے حوالے سے ناکامی کا اعتراف کرنے سے انکار کیا، اور آخر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹیلی ویژن پر قوم کے نام بیان میں گلوان میں چینی در اندازی سے انکار کیا۔ اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا یہ بیان این ایس اے اور سی ڈی ایس کے مشورے کی بنیاد پر تھا۔ بہت سے معاملات میں وزیر اعظم این ایس اے اور سی ڈی ایس پر صرف ایک ماہ میں اعتماد کھو بیٹھے ۔ انہوں نے سیاسی شخصیات اور انٹیلی جنس افسروں کے مشوروں کو ترجیح دی جن کے تجزیے اب تک درست ثابت ہوتے رہے تھے ۔ اگر چینیوں نے دیسپانگ اور پنگانگ سے پیچھے ہٹنے سے انکار جاری رکھا، جیسا کہ ممکن دکھائی دے رہا ہے تو وہ بزورطاقت ایک نئی ایل اے سی تشکیل دے دیں گے ۔
اس کے نتیجے میں بھارت کئی سو مربع کلو میٹر کے علاقے سے محروم ہو جائے گا۔ اگر بھارت نے یہ شکست بخوشی ہضم کرلی تو یہ محض قومی وقار پر ہی ایک کاری ضرب نہیں ہوگی بلکہ چین کیساتھ ساتھ پاکستان سے تعلقات میں بھی قدرے ہزیمت آمیز انداز اختیار کرنا پڑے گا۔