نو منتخب وزیراعظم سے وزیراعظم ہاؤس تک!

نو منتخب وزیراعظم سے وزیراعظم ہاؤس تک!
نو منتخب وزیراعظم سے وزیراعظم ہاؤس تک!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مملکت ِ خداداد پاکستان کے حالات تو وہ ہیں کہ
عاقل کو خاموشی زیبا
عارف کو بے ہوشی زیبا
مگر ہم، آج، ان پر حسب ِ معمول کڑھنے کی بجائے، احتجاجاً مسکرانا بلکہ قہقہہ لگانا چاہتے ہیں۔ ہم آج بعض معاملات پر اپوزیشن کی ”فکر مندی“ کے علی الرغم، حکومت ِ وقت کی ”تحسین“ کرنا چاہتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لکھے کو کوئی“ذم بشبہ المدح“ نہ سمجھے اور اگر سمجھے تو اپنی ذمہ داری پر سمجھے، ہم تو اپنے پیارے ملک میں ”آزادیئ صحافت“ اور ”اظہارِ رائے کی آزادی“ کے بالکل متحمل نہیں ہو سکتے۔
آزاد کشمیر کے انتخابات جن حالات میں اور جس طرح ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں،ان پر کسی طرح کا تبصرہ کرنا، تضیع ِ اوقات ہی ہو گا(کہ اس کا کوئی نتیجہ تو نکلنے سے رہا،ہونا تو وہی ہوتا ہے،”جو پیا من بھائے“……)
الیکشن کے بعد ایک بحث چلی تھی کہ آزاد کشمیر  کا وزیراعظم کون بنے گا؟
کوئی بیرسٹر سلطان کا نام لے رہا تھا اور کوئی تنویر الیاس جیسے سرمایہ دار کا کہہ رہا تھا اور کوئی اظہر صادق کا، ایک دو اور کے نام بھی سننے میں آ رہے تھے،لیکن(اچانک) وہ سردار عبدالقیوم نیازی وزیراعظم منتخب ہو گئے ہیں کہ جن پر چند روز قبل جناب عمران خان حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ”یہ نیازی کہاں سے آ گیا؟“
ہمارے ہاں دور کی کوڑی لانے والوں نے تو تنویر الیاس کے بارے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ ”ایک ارب میں وزارتِ عظمیٰ کا تاج اپنے ہاتھ میں کر لیا“ اس پر تنویر الیاس کو ”اے ٹی ایم“ کا طعنہ بھی سہنا پڑا تھا۔
بیرسٹر سلطان، کشمیری سیاست کا ایک بڑا اور تحریک انصاف کا ایک نمایاں نام تھا، مگر وزارتِ عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہونے اور قد کاٹھ میں بڑا ہونے کے باوجود، تہی دامن کے تہی دامن ہی رہے،جبکہ ہما سردار عبدالقیوم نیازی کے سر پر بیٹھ گیا (بلکہ بٹھا دیا گیا)۔
اس”اچانک“ فیصلے کے پس منظر میں کیا وجوہات کار فرما ہیں! سوائے فیصلہ کرنے والے، ”طاقتوروں“ کے شاید ہی کوئی بیان کر پائے!البتہ بہت سوں نے اس کو کسی ”روحانی شخصیت“ کے استخارے اور علم حروف و اعداد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ حلقہ ایل اے18کے عدد اور نام میں پہلے حرف ”ع“ کو بہتر اور محفوظ کامیابی کے لئے لازمی قرار دیا گیا تھا، کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان، پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار، صدرِ مملکت عارف علوی، سندھ کے گورنر عمران اسماعیل وغیرہ وغیرہ کے بعد آزاد کشمیر کی وزارتِ عظمیٰ کے لئے (دوڑ سے باہر ہونے کے باوجود) عبدالقیوم نیازی کو نامزد کر دیا گیا۔اس کو ”روحانی استخارے“ سے ہٹ کر بھی بعض لوگوں نے ”نیازی“ کے لاحقے اور قومیت پر بھی چہ میگوئیاں کر ڈالیں اور بعض نے (سردار عبدالقیوم نیازی کو) جنابِ بزدار کی مثل قرار دے کر، سندھ کے لئے بھی اسی طرح کے کسی اور ”بزدار“ کی پیش گوئی بھی کر دی۔
ہمیں تو اس”ع“ کہانی پر کوئی یقین نہیں نہ ہی ہم علم الاعداد پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ تو ایک نسخہ ہی ہے کہ جس طرح کا نسخہ کسی بے ہنگم موٹے کو  کسی حکیم نے کہا تھا کہ موٹاپے سے نجات کے لئے ”چ“ سے پرہیز کرو، یعنی ”چ“ سے چپاتی، چاول، چنے، چینی، چکنائی چائے وغیرہ(حالانکہ ”چ“ سے چاپلوسی، چول پن بھی بنتے ہیں!) اور ”ع“ سے عاجزی، عدل، عار، عافیت، عبادت، عبرت اور عوام وغیرہ بھی ہوتے ہیں کہ جن کی طرف، کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔
باقی ہر بات اور ہر سیاسی معاملہ کو ”استخارہ“ کے حوالے کر دینے والے غور فرمائیں کہ ”استخارہ“ تو ”ع“ سے شروع نہیں ہوتا،بلکہ الف سے شروع ہوتا ہے اور یہ اُن لوگوں کے قول کے ”عین مطابق“ ہے جو کہتے ہیں کہ ”پاکستان میں تین الف حکومت کرتے ہیں ……“۔
بہرحال، آزاد کشمیر کے وزیراعظم جنابِ سردار عبدالقیوم نیازی، جیسے بھی چنے گئے ہوں، ہماری تو دلی دُعا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کا استعارہ بن جائیں اور ان کے دور میں ہر حال میں کشمیر اور کشمیریوں کو آزادی کی دولت و عظمت میسر آ جائے۔اگر ان کے اقتدار سے آزادی کی نعمت مل گئی اور ”کشمیربنے گا پاکستان“ کا نعرہ، سچ ثابت ہوگیا تو پاکستان اور کشمیر کے نیازی، اپنی قوم کے لازوال ہیرو بن کر (تاقیامت) نور آفریں اور تاریخی درخشندگی کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جائیں گے۔ بصورت دیگر سقوطِ ڈھاکہ کا جنرل نیازی یاد آتا رہے گا۔
وزیراعظم پاکستان کی طرف سے قوم کو ایک اور معاملہ کی خبر دی گئی ہے کہ وزیراعظم ہاؤس کو کمرشل بنا دیا جائے گا (وزیراعظم ہاؤس کی طرح دیگر ایسے ہی ہاؤس بھی کمرشل کرنے کی بات بھی کی گئی ہے) یعنی جہاں حکومتی ذمہ داران، ارباب اقتدار و اختیارات بیٹھ کر، ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے کرتے تھے اور خاص خاص (خواص الخاص) ہی پہنچ رکھتے تھے، اب وہاں جو چاہے، ٹکٹ کی صورت یا کسی کرایہ کی صورت رقم لگا کر پہنچ سکتا ہے۔(یہ ہم سمجھے ہیں ورنہ کمرشل کی کئی اور صورتیں بھی ہیں، یعنی ایوان وزیراعظم کے بڑے بڑے ہال اور لان، شادی وغیرہ کی تقریبات کے لئے بھی بک ہوسکتے ہیں اور کسی بھی طرح کی شوٹنگ کے لئے بھی یا کسی طرح کی ہوٹلنگ کا بھی انتظام ہو سکتا ہے۔ ایک انداز کمرشل ہونے کا یہ بھی ہو سکتا ہے  کہ وہاں بیٹھ کر بڑے بڑے سودے کئے جا سکیں۔ اس انداز کو سامنے رکھا جائے تو ان لوگوں کے طعنے یاد آ جاتے ہیں، جو کہتے نہیں تھکتے کہ عہدوں کو بڑی رقوم کی عوض فروخت کیا جاتا ہے (اس قسم کا طعنہ حال ہی میں آزادکشمیر کے  ”وزارتِ عظمیٰ“ کے حوالے سے بھی سننے میں آ گیا تھا۔)
وزیراعظم ہاؤس کو ”کمرشل“ کرنے کے فیصلے پر اپوزیشن اور تجزیہ کاروں کی طرف سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ اس کو قومی رازوں کے افشا اور عالمی تضحیک تک لے جانے کی کوشش و سازش قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر ہم اس کو جناب عمران خان کا ”حسن احتجاج“ سمجھتے ہیں کہ ”یہ جواب ہے، اس بات کا کہ ”فیصلے یہاں نہیں کہیں اور ہوتے ہیں“۔
اگر ایسا ہی ہے تو پھر واقعتا ان ایوانوں کو کمرشل ہی بنا دیا جانا چاہئے کہ اس طرح(ٹکٹ وکرایہ سے) کم از کم معاشی بہتری کے کچھ امکانات تو پیدا ہوں گے!

مزید :

رائے -کالم -