سبز باغ کی مشین

 سبز باغ کی مشین
 سبز باغ کی مشین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


لاہور سے رحیم یارخان کا سفر جو پہلے 10 سے 12 گھنٹے پر محیط تھا اب بذریعہ موٹروے جسے جنوبی پنجاب کے لوگ سی پیک کے نام سے پکارتے ہیں 7 گھنٹے کا ہو گیا ہے۔ خاکسار نے لاہور راوی ٹول پلازہ سے سفر کا آغاز کیا۔ جڑانوالہ ریسٹ ایریا پر پہلا سٹاپ اس لئے بھی کیا کہ ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں، ہر 2 گھنٹے بعد ٹانگوں اور جسم کو حرکت دینا بہت ضروری ہے (چاہے آپ خود گاڑی چلا رہے ہیں، بس، ریل گاڑی یا جہاز میں محو سفر ہیں، ایسا کرنا ٹانگوں میں خون کو منجمد ہونے سے روکتا ہے) وہاں موجود دکان پر گیا تاکہ چائے وغیرہ لوں۔ بچے نے کہا ”آئس کریم لینی ہے“۔ جب بل دیا تو چائے اور آئس کریم ڈبل ریٹ پر فروخت کئے جا رہے تھے۔ میں نے دکان سے باہر ریٹ لسٹ سے اشیا کے نرخ دیکھ لئے تھے۔ میں نے بچے کو کہا، اس کی ویڈیو بناؤ تاکہ ارباب اختیار کو پتہ چل سکے کہ عوام الناس کو کیسے لوٹا جا رہا ہے۔ دکان دار کا یہ سننا تھا اس نے جھٹ سے زائد لی گئی رقم لوٹا دی۔ میں نے پھر موٹروے پر گاڑی ڈال دی۔100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے خراماں خراماں جا رہا تھا۔ میرے بیٹے نے کہا۔ موٹروے پر گاڑیاں تیزی سے ہمیں پاس کر رہی ہیں۔ ان کی سپیڈ کتنی ہو گی۔ میں نے کہا یہی کوئی 140، 150 یا 160 کلومیٹر فی گھنٹہ۔ بیٹے نے حیرت سے سوال کیا ان تیز رفتار گاڑیوں کو موٹروے پولیس چیک کیوں نہیں کر رہی۔ میں نے بیٹے سے کہا۔ آپ کو راستے میں موٹروے پولیس کی گاڑی و سپیڈ چیک کرنے والا کیمرہ نظر آیا۔ بچوں نے نفی میں سر ہلایا۔میں نے کہا۔لگتا ہے پولیس والے عید کی چھٹیوں پر جا چکے ہیں۔ 


2 گھنٹے بعد نماز کے لئے راستے میں آنے والے سروس ایریا پر اترے جہاں مسجد سے متصل واش روم کی حالت زار پر ترس آیا اور خیال کیا ہم معلوم نہیں کب سدھریں گے۔ وہی پانی سے بھرپور گیلی جگہ اور بدبو ایسی کہ کھڑا نہ ہوا جا سکے۔ خیر وضو کرنے کے لئے بیٹھا تو وضو کرنے کی سیٹ بنانے والے کی کاریگری پر حیران ہوا کہ کاش اس انجینئر نے خود بھی اس پر بیٹھ کر وضو کیا ہوتا۔ نماز پڑھ کر دھوپ میں کھڑی تپتی گاڑی کے اوپر پارکنگ شیڈ نہ ہونے کا شکوہ میں نے خود سے کیا کہ جناب آپ امریکہ، یورپ، چائنا، یو اے ای یا سنگا پور میں نہیں پھر رہے۔ 


خدا خدا کر کے رحیم یار خان انٹرچینج پہنچ تو گئے لیکن 15 کلومیٹر کا فاصلہ وبال جان بن گیا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر جا بجا 2 فٹ کے گڑھوں نے موٹروے سفر کا مزہ کرکرا کر دیا۔ شہر پہنچتے ہی موٹر سائیکل اور چنگ چی رکشہ کے اژدھام نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اپنے قیام کے دوران جولائی کی اس سخت ترین گرمی میں سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ کی نوید مجھ تک پہنچی تو میں ششدر رہ گیا کہ سردیوں میں گیس لوڈشیڈنگ کا تو سنا تھا یہ کیا ماجرا ہے؟ میں نے کہا، رحیم یار خان کے باسیوں نے زیادتی کی اس معاملے کو تبدیلی سرکار کے گوش گزار نہیں کیا۔ انہوں نے کہا، بے فائدہ ہے جی۔ میں نے کہا شکر کریں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اس تباہ کن گرمی میں نہیں ہو رہی۔ بھائی صاحب نے کہا۔ جی بالکل، بجلی کے بل بھی ٹکا کر دئیے جا رہے ہیں۔ پچھلے سال سے ڈبل بل آرہا۔ غریب آدمی کو تو چھوڑئیے، مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس تو بیچارا مر ہی گیا ہے بس تدفین ہونا باقی ہے۔ دو دن قیام کے بعد بہاولپور آ گئے۔ رحیم یارخان سے بہاولپور اور پھر بہاول پور شہر کی انٹرنس سڑک کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا کہ 40 سال ہو گئے۔ اس سڑک کی حالت نہ بدل سکی۔ قائد اعظم میڈیکل کالج اپنے مادر علمی کے سامنے سڑک پر بے ہنگم ٹریفک نے پریشان کر دیا۔ میں نے اپنے فرسٹ کزن سے کہا۔ الیکشن 2018 میں آپ نے ہمارا جینا حرام کر دیا تھا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری پارٹی کو ووٹ دینا گناہ کبیرہ تصور کیا جائے گا۔ اب 3 سال گزرنے کے بعد ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ کچھ صلواتیں سنانے کے بعد کہنے لگا۔ گو مایوسی کفر ہے مگر نااہلی کی بھی اخیر ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم ملک پر کتنا قرضہ ہے؟ ملک دیوالیہ ہونے والا تھا۔ مجھے تو پٹرول،آٹا، گھی، دال، چینی، سبزی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں سے غرض ہے وہ کوہ ہمالیہ سے باتیں کر رہی ہیں۔میرا لیڈر کہتا ہے۔”چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ این آر او نہیں دوں گا۔ پٹرول، آٹا، چینی مافیا کو ختم کر کے دم لوں گا“۔ پوچھنا یہ تھا۔ حکومت ختم ہونے میں صرف 2 سال رہ گئے۔ مافیا کو پٹہ کس نے ڈالنا ہے۔ حکومت تو ان کے پاس ہے یہ آخر کس ہرکولیس نے کرنا ہے۔ یہ سب کب تک ہو گا۔ کیا جناب عمران خان اگلے 37 سال کے لئے وزیراعظم ہیں؟ میں نے اپنے عزیز کو ٹھنڈا کیا کہ ملک میں پیسہ نہ تھا۔ پیسہ آ چکا۔ تم دیکھنا ترقیاتی کاموں کی لائن لگ جائے گی۔ اس نے غصے سے کہا۔ 50 سال ہو گئے میرے شہر خیرپور ٹامیوالی میں سوئی گیس تو آ نہ سکی اور حاصل پور سے وہاڑی، بورے والا، چیچہ وطنی، کمالیہ تک ایک رویہ سڑک ہزاروں لوگوں کو کھا چکی اور آپ جناب حاصل پور سے وہاڑی، کچا کھوہ سنگل سڑک پر جائیں گے تو لگ پتہ جائے گا اور جی ٹی روڈ کو عبدالحکیم سے ملانے والی سڑک پر 5 فٹ کے گڑھے آپ کا کھانا ہضم کر دیں گے۔میں نے کہا۔یار جناب عثمان بزدار نے سارا پیسہ لاہور پر لگانے کی روایت کو توڑا ہے۔ وہ پنجاب کے طوفانی دورے کر رہے ہیں۔
میرے عزیز نے بڑے انہماک سے میری بات سن کر کہا۔ بھائی جان ناراض نہ ہوں۔ اگر میں یہ کہوں کہ پی ٹی آئی بھی سبز باغ کی مشین بن چکی تو مضائقہ نہ ہو گا۔ میرا کپتان کہتے نہیں تھکتا۔ اس کا کوئی متبادل نہیں۔ اگلے 5 سال بھی ہمارے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا پی ٹی آئی کو پکا یقین ہے کہ اگلی باری انہی کی ہے؟ کیا کپتان کے 14 ملین ٹوئیٹر فالورز یا اورسیز پاکستانی 2023 کا الیکشن جتوائیں گے؟ کیا خالی تقریریں کرنے سے ووٹ خود چل کر بیلٹ باکس میں آئیں گے؟ ووٹ لینے کے لئے کارکردگی بھی سامنے رکھنا ہو گی یا بس خالی ہوائی فائر سے کام چلایا جائے گا؟ آپ میری بات لکھ کر رکھ لیں اگر مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند نہ کیا گیا تو یہ پی ٹی آئی کو ہڑپ کر جائے گی  ابھی عزیزم کا دکھ بھرا وعظ جاری تھا خاکسار نے وہاں سے رفو چکر ہونا مناسب سمجھا۔ اگلی صبح لاہور کے لئے نکلا۔ عبدالحکیم ٹول پلازہ پر گاڑیوں کی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔تین لین کی موٹروے پر 6 لین بنائے گاڑیاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے چکر میں تھیں۔ جب پیمنٹ بوتھ تک پہنچا۔ دو گاڑیوں والے غلط سمت سے اندر گھس آئے۔ اس ناچیز نے ڈیوٹی پر موجود پولیس آفسر سے مداخلت کی درخواست کی جو ناصرف مسترد کر دی گئی بلکہ بد تہذیبی کا تعارف بھی کروا دیا گیا۔ وہاں سے بڑی مشکل سے نکلے۔ موٹروے پر راستے میں سڑک کے بیچ جانور مرے پڑے تھے جو اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ موٹروے کے دونوں اطراف باڑ اکھیڑ لی گئی جو حادثات کا موجب بن رہی۔ صدافسوس، ایک بھی شخص فکر کرنے والا نہیں۔ بہرحال، اللہ اللہ کر کے راوی ٹول پلازہ پر پہنچے تو نئی مصیبت ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ گاڑیوں کی 2 کلومیٹر لمبی لائنیں دیکھ کر دل میں خیال آیا کہ بیرون ملک ای ٹیگ مع بیلنس سفر کرنے کی سہولت اور اپنے ہاں دیسی پروگرام جاری ہے۔ گھنٹہ بھر ذلیل و خوار ہونے کے بعد گھر پہنچے تو دل میں ایک حسرت سی اٹھی کہ کاش ہمیں سبز باغ دکھانے والی مشینوں کے بجائے درد دل رکھنے والے حقیقی عوامی نمائندے میسر آئیں پتہ نہیں یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -