حقیقت کا علم حاصل کرنے کی قابلیت انسان کا سب سے بڑا جوہر ہے
تحریر: ملک اشفاق
قسط: 39
ارسطو کو سقراط سے اس باب میں اتفاق ہے کہ جو شخص راہ صواب کو جانتا ہے وہ صواب کے علاوہ کسی اور شے پر عمل کر ہی نہیں سکتا۔ غیر ضابط شخص جب تحریصات سے بھی آزاد ہوتا ہے تو اس وقت بھی وہ صرف یہی رائے قائم کرتا ہے یا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے اپنی خواہشوں کو قابو میں رکھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ اس کی خواہشات اس قدر قوی ہو جائیں کہ ان آراءو احساسات کا ان پر کوئی بس نہ چلے لیکن حقیقی علم کو یہ کسی طرح سے زیر نہیں کر سکتیں۔ اس مقام پر ممکن ہے ارسطو اپنے مسئلہ فضیلت کے مطابق یہ بھی کہہ دیتا کہ اخلاقی فضیلت کا علم اور اس کی عادت دونوں لازمی ہیں۔ اس بحث میں اس نے سقراط و افلاطون کے اس خیال کا اتباع کیا ہے کہ حقیقی علم ارادہ اور عقل دونوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ ارسطو اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ غیر ضابط شخص کو علم صائب کے عام اصولوں کا علم ہو سکتا ہے۔ مسرت کی ارسطو نے یہ تعریف کی ہے کہ یہ روحِ عقلی کی فعلیت ہے جو فضیلت کے مطابق ہوتی ہے اور فضیلت عام طور پر ایک ایسا وصف ہوتا ہے جس کی بناءپر انسان اپنا صحیح فریضہ پوری طرح انجام دے سکتا ہے۔ بس چونکہ عقلی فضیلت روحِ انسانی کا سب سے اعلیٰ فریضہ ہے اس لیے اخلاقی فضائل کی مختلف اشکال ہیں جن کو عقل اپنے آزاد عمل کے لیے اختیار کرتی ہے۔ لیکن یہ اشکال محض عقل سے عالمِ وجود میں نہیں آتیں۔ یہ ایک حد تک ان واقعی حالات سے بھی پیدا ہوتی ہیں جن میں عقل اپنے آپ کو پاتی ہے۔ یہ حالات و شرائط اس قسم کے ہوتے ہیں جیسے کہ فرد کی خاص قسم کی جسمانی و ذہنی بناوٹ۔ معاشرہ کی خاص ساخت جس کا وہ اپنے آپ کو جزو پاتا ہے۔ عقل ان حالات و شرائط کو اپنی فعلیت کے مطابق کرنا چاہتی ہے۔ چنانچہ ان خواہشوں اور احساسات کو باقاعدہ کرنے کی کوشش کرتی ہے جو جسم اور ذہن کے غیر عقلی حصہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ معاشرتی ہمنوائی بھی پیدا کرنا چاہتی ہے تاکہ افراد کی باہمی مخالفت سے اس کے عمل میں رکاوٹ واقع نہ ہو۔ پس اخلاقی فضائل ایسی اشکال ہیں جن سے عقل تحقیق کرنے کے لیے انسان کی روح اور معاشرت یا حکومت کو جو افراد پر مشتمل ہوتی ہے منضبط و باقاعدہ کرتی ہے۔
ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ افلاطون اور ارسطو جن اخلاقیاتی نتائج تک پہنچے ہیں ان میں (جس حد تک کہ انفرادی خیر کا تعلق ہے) بہت کچھ مشابہت ہے خصوصاً طمانیت کی زندگی کے تعصل میں دونوں بالکل متفق ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ فرائضِ ذہنی کے مابین ہم نوائی کا نام ہے جس میں لذت اور عقلی و جمالی افعال دونوں داخل ہیں۔ اس کے علاوہ اور بہت سے امور میں اتفاق ہے۔ ارسطو کی معیاری زندگی کا تعقل(تغلسف) جس میں وہ عام اخلاقیات سے تجاوز کر جاتا ہے، ایسی خصوصیت ہے جو سقراط کے بعد کے یونانی فلسفہ میں عام طور پر پائی جاتی ہے اور وہ سب سے عقل مند آدمی اس کو سمجھتے ہیں جس کو مسرت سب سے زیادہ میسر ہے اور جو معمولی انسانوں سے علیٰحدہ اور ان سے بالاتر روحانی زندگی گزارتا ہو۔ یہ خیال افلاطون کے اس نظریہ کا نتیجہ ہے کہ جدلیت جو انسان کی سب سے اعلیٰ فعلیت ہے جو صرف چند منتخب افراد کو میسر ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ عقل مند آدمیوں کے ہی حقوق ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس (افلاطون کے نزدیک) ان کو کل کی بہبود کے لیے مملکت پر حکومت کرنی ہوتی ہے۔ ارسطو کی بھی یہی تعلیم ہے کیونکہ وہ بھی یہ کہتا ہے کہ سلطنت کی فلاح و بہود کسی ایک فرد کی فلاح و بہبود سے زیادہ بلند مرتبہ اور کامل ہوتی ہے۔ اس کے بعد افلاطون و ارسطو اس امر میں متفق ہیں کہ دونوں کے نزدیک حقیقت کا علم حاصل کرنے کی قابلیت انسان کا سب سے بڑا جوہر ہے۔ اسی وجہ سے بعض اوقات ان کو علمیہ کہتے ہیں۔ یہ رحجان کچھ تو ان کے ذاتی مذاق پر مبنی تھا کیونکہ دونوں علم کو علم کی غرض سے حاصل کرتے تھے اور اسی میں ان کو سب سے زیادہ تشفی اور اطمینان نصیب ہوتا تھا۔ انہوں نے جلدی میں یہ نتیجہ نکال لیا کہ اوروں کا بھی یہی حال ہوگا۔ لیکن وہ محض علمیہ بھی نہیں ہیں کیونکہ وہ لذت اور ذوقِ حسن کو مسرت کا نہایت ہی اہم جزو خیال کرتے تھے۔ لیکن محض نظریہ لذت میں بہت خرابیاں معلوم ہوتی تھیں۔ لذت محض کی جستجو فضول ہے کیونکہ خود لذت کا حصول اس امر پر مبنی ہے کہ ہم کو لذت کے علاوہ اور چیزوں کی بھی خواہش ہو۔ بہ حیثیت مجموعی دونوں اس امر کی تعلیم دیتے ہیں کہ علم کا محض علم کے لیے حاصل کرنا (اگرچہ واحد بہترین فعل نہ ہو) بہترین فعل ہے اور اس میں سب سے زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے۔(جاری ہے )
نوٹ :یہ کتاب ” بک ہوم “ نے شائع کی ہے ، جملہ حقوق محفوظ ہیں (ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں )۔