دولت کی حد سے بڑھی محبت نے سلطان محمود غزنوی کو وعدہ خلافی کے راستے پر بھی ڈالا
مصنف: پروفیسر عزیز الدین احمد
قسط (7)
”بعض مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ سلطان محمود نے اپنے آخری زمانے میں یہ سنا کہ نیشاپور میں ایک بہت بڑا دولت مند قیام پذیر ہے۔ محمود نے حکم دیا کہ اس شخص کو غزنی بلایا جائے۔ شاہی حکم کی تعمیل میں اس دولت مند کو غزنی بلایا گیا اور وہ شاہی دربار میں پیش ہوا۔ سلطان محمود نے اس شخص سے کہا۔ میں نے سنا ہے کہ تو ملحد اور قرمطی ہے، اس شخص نے جواب دیا۔ ”اے بادشاہ میں نہ ملحد ہوں نہ قرمطی میرا جرم صرف اتنا ہے کہ میرے پاس بہت زیادہ دولت ہے۔ تو جو چاہے مجھ سے لے لے لیکن مجھے ملحد اور قرمطی کہہ کر بدنام نہ کر، سلطان محمود نے اس سے تمام دولت لے لی اور اسے حسن عقیدت کا ایک فرمان لکھ کر دےدیا۔“
معلوم ہوتا ہے کہ محمود کو خود آخری عمر میں یہ احساس ہوا کہ اس نے ساری زندگی جو جنگیں لڑیں وہ فی الحقیقت دولت اکٹھی کرنے کے لیے تھیں۔ ضمیر پر اس بوجھ نے ایک خواب کی شکل اختیار کی جسے فرشتہ اس طرح بیان کرتا ہے۔
”جس زمانے میں محمود نے سومناتھ پر حملہ کیا تھا اور پرم دیو اور دا بشلیم سے اس کی جنگ ہوئی تھی تو محمود کو یہ خطرہ لاحق ہوا تھا کہ کہیں مسلمانوں کے لشکر پر ہندوﺅں کا لشکر غالب نہ آ جائے۔ اس وقت پریشانی کے عالم میں سلطان محمود شیخ ابوالحسن خرقانی کے خرقے کو ہاتھ میں لے کر سجدے میں گر گیا اور خدا وند تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا اس خرقے کے مالک کے طفیل مجھے ان ہندوﺅں کے مقابلے میں فتح دے۔ میں نیت کرتا ہوں کہ جو مال غنیمت میں یہاں سے حاصل کروں گا اسے غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں گا۔ مؤرخین کا بیان ہے کہ اس دعا کے مانگتے ہی آسمان کے ایک حصے سے سیاہ بادل اٹھے اور سارے آسمان پر محیط ہو گئے۔ بادل کی گرج اور بجلی کی چمک کڑک سے ہندوﺅں کا لشکر ہراساں ہو گیا اور ایسی تاریکی چھا گئی کہ ہندو اس پریشانی کے عالم میں آپس میں لڑنے لگ پڑے اور یوں مسلمانوں نے ہندوﺅں پر فتح پائی۔ میں نے ایک معتبر تاریخ میں یہ روایت دیکھی ہے کہ جس روز سلطان محمود نے شیخ ابوالحسن خرقانی کے خرقے کو ہاتھ میں لے کر خداوند تعالیٰ سے دعا مانگ کر فتح حاصل کی۔ اسی رات کو محمود نے خواب میں شیخ ابوالحسن کو دیکھا۔ انہوں نے محمود سے فرمایا۔ ”اے محمود تو نے میرے خرقے کی آبروریزی کی ہے۔ اگر تو فتح کی دعا کی جگہ تمام غیر مسلموں کے اسلام لے آنے کی دعا کرتا تو وہ بھی قبول ہو جاتی۔“
ظاہر ہے محمود غزنوی کو ان پر فتح حاصل کر کے مال غنیمت حاصل کرنے سے زیادہ رغبت تھی۔ دولت کی اس حد سے بڑھی ہوئی محبت نے سلطان کو وعدہ خلافی کے راستے پر بھی ڈالا جو کسی بھی عظیم شخصیت کے شایان شان نہیں۔ اس ضمن میں محمود نے مشہور فارسی شاعر فردوسی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ فردوسی کو جب محمود نے ایران قدیم کی منظوم تاریخ لکھنے پر مامور کیا تو وعدہ کیا کہ ہر شعر کے معاوضے کے طور پر شاعر کو سونے کی ایک اشرفی دی جائے گی۔ جب شاہ نامہ مکمل ہو گیا تو بجائے سونے کی اشرفی کے ہر شعر کے عوض چاندی کا سکہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ فردوسی نے یہ معاوضہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ بہت بعد میں جب کہیں محمود کو اپنی اس زیادتی پر پشیمانی ہوئی اور اس نے سونے کے سکے فردوسی کو بھیجے تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ عین اس وقت فردوسی کا جنازہ شہر سے باہر جا رہا تھا۔
محمود غزنوی کو اگر اپنے دور کی ایک سلطنت ساز شخصیت کے طور پر دیکھا جائے تو وہ اپنے اردگرد کے حاکموں کے مقابلے میں زیادہ ذہین، قابل اور وسیع النظر حکمران دکھائی دیتا ہے جس نے اردگرد کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو ختم کر کے ایک بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ لیکن اگر اسے ”اسلامی ہیرو“ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ اس عظمت کے معیار پر پورا نہیں اترتا ۔ جہاں کشائی کی ہوس میں سلطان محمود نہ صرف قرمطیوں اور غیر مسلموں کو ہی اپنا نشانہ بناتا تھا بلکہ اس نے اردگرد کے کمزور مسلمان حکمرانوں سے جنگیں لڑیں ان جنگوں میں اہل اسلام کے خون سے میدان کارزار باربار سرخ ہوا۔ بلخ، سیستان، اور گرجستان کی ریاستیں جن پر سلطان نے بزور شمشیر قبضہ کیا نہ قرامطہ کے قبضے میں تھیں اور نہ ہندوﺅں کے۔ ان پر تو راسخ العقیدہ مسلمان فرمانروا حکمرانی کر رہے تھے۔ اسلام تو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اس عمل کو فساد فی الارض قرار دیتا ہے اور ایسا کرنے والے کو عذاب کی وعید دیتا ہے۔ ظاہر ہے محمود کو یہ سب کچھ پتہ تھا۔ اس کی ساری کارروائیاںسلطنت سازی کےلئے تھیں۔ ( جاری ہے )
نوٹ : یہ کتاب ” بُک ہوم“ نے شائع کی ہے ۔ ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں )۔