پولیس منشیات فروشوں کا دھندہ روکنے میں ناکام کیوں؟
وزیر اعلی مریم نواز شریف کے ڈرگ فری پنجاب ویژن کی تکمیل میں منشیات فروشوں کے خلاف آجکل پنجاب پولیس کا کریک ڈاؤن جاری ہے۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی قیادت میں لاہور سمیت صوبے بھر میں منشیات فروشوں کے ٹھکانوں پر روزانہ ٹارگٹڈ آپریشنز عمل میں لائے جا رہے ہیں، ایک روز میں لاہور سمیت صوبہ بھر میں منشیات فروشوں کے ٹھکانوں پر 225 چھاپے مارے گئے، مکروھ دھندے میں ملوث 104 ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا،97 مقدمات درج کیے گئے، ملزمان کے قبضہ سے 68 کلو گرام چرس، 03 کلو ہیروئن، ڈیڑھ کلو آئس، 1320 لٹرز شراب برآمد کی گئی۔وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت پر صوبہ بھر کی پولیس کا منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن ایک اچھا اقدام ہے مگر جو پولیس افسران خو د اس گھناؤنے کاروبا میں ملوث ہیں سب سے پہلے ان کا محاسبہ ہونا چاہیے حال ہی میں پنجاب میں 200 سے زائدپولیس افسران اور اہلکاروں کے منشیات فروشوں کے سہولت کار ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔پنجاب پولیس کی سرویلنس برانچ کی تیار کردہ رپورٹ جو آئی جی پنجاب کو بھجوا ئی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق لاہور سمیت صوبے کے 10 اضلاع کے 234 پولیس افسروں اور اہلکاروں کے نام اس میں شامل ہیں،جن میں سے 9پولیس افسر یونیفارم میں بھی منشیات فروشی کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لاہور کے 30 پولیس اہلکار منشیات فروشوں کے سہولت کار ہیں، انکے خلاف 35 مقدمات درج ہیں۔ فیصل آباد کے سب سے زیادہ 62 پولیس ملازمین منشیات فروشوں کی سہولت کاری میں ملوث ہیں جن میں سب انسپکٹر،اے ایس آئی،کانسٹیبلز اور ڈرائیورزشامل ہیں۔ بہاولپور کے 40، ساہیوال کے 26، شیخوپورہ کے 23،گوجرانوالہ کے 21، ملتان کے 18،راولپنڈی کے 6،ڈی جی خان کے 5 اور سرگودھا کے 3 پولیس افسر اوراہلکار منشیات فروشوں کے سہولت کار نکلے۔رپورٹ کے مطابق منشیات فروشوں کی سہولت کاری میں ملوث صرف 2 اہلکار جیلوں میں ہیں، پولیس اہلکاروں کے متعلقہ منشیات فروش گینگز کی تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل ہیں،چرس، ہیروئن، آئس اور کرسٹل پاؤڈر سمیت دیگرنشوں کی تفصیلات بھی رپورٹ کاحصہ بنائی گئی ہیں۔سرویلنس برانچ نے خفیہ رپورٹ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو بھجوا ئی تھی جس میں منشیات کے دھندے میں ملوث پولیس افسروں اور اہلکاروں کیخلاف کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ادارے میں موجود سب سے پہلے ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے تاکہ کسی آفیسر یا اہلکارکوان کی سرپرستی سے روکا جاسکے جب تک ادارے میں موجود اس گھناونے کاروبار میں ملوث فورس کا راستہ روکا نہیں جائے گا منشیات کے دھندہ روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔یہ چھاپے کس نوعیت کے ہیں ان میں سے ایک کا احوال بیان کردیتے ہیں کہ ایک چھاپے کے دوران پولیس کوسخت مذاحمت کا سامنا کرنا پڑاجس میں منشیات فروشوں فروشوں سے تصادم میں تھانیدار سمیت 3اہلکاروں کی وردیاں پھٹ گئیں۔یہ تصادم ایک چھاپے کے دوران ہوا۔پولیس کی طرف سے یہ چھاپہ کچے کے علاقے میں نہیں بلکہ لاہور کے قریب کے پکے کے علاقے میں مارا گیا۔پولیس چوکی کوٹ عبدالمالک کے قریب منشیات فروشی کے کئی برس پرانے اڈے پر چھاپہ مارنے پر منشیات فروش بپھر گئے۔خبر کے مطابق اڈا کئی برس سے چل رہا تھا تو کیا پولیس کو آج خبر ہوئی یا حصے بخرے کے تنازعہ نے جڑ پکڑ لی۔اڈے کی شروعات کے موقع پر خبر لے لی جاتی تو آج پولیس والوں کی وردیاں نہ پھٹتیں۔پولیس نے لیڈی منشیات فروش کو گرفتار کیاتو اس کے بیٹے سمیت 15 افراد نے پولیس پر حملہ کر کے اس کو چھڑوانے کی کوشش کی،اس پر لڑائی شروع ہو گئی۔شیر جوانوں نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر خوب مقابلہ کیا۔اپنی وردیوں پر کھیل گئے۔خاتون منشیات فروش کو چھڑانے کی کوشش ناکام بنا دی۔اسی خاتون سے موقع پرچرس بھی برآمد کی گئی۔ اگر منشیات فروشوں کی طرف سے پولیس کے ساتھ مطلوبہ تعاون نہ کیا گیا تو کلاشن کوف بھی ڈالی جا سکتی ہے۔پولیس کے ہر جگہ فعال مخبر ہوتے ہیں۔ویسے بھی پولیس اپنے ایریے کے چپے چپے سے واقف ہوتی ہے۔جرائم پیشہ عناصر کی طاقت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اسی کے مطابق چھاپہ مارنے کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔جہاں سے پولیس والے کٹ کھا کر اور وردیاں پھڑوا کرآ گئے۔کیا یہ مقابلے کے لیے ہی گئے تھے یا چائے شائے پینے؟ مقابلے کے لیے جاتے تو بھاری نفری ساتھ لے کے جاتے۔چلیں جو بھی ہوا ان کیلئے اچھا ہوا۔ پکڑے جانے والوں کی شامت آگئی اور یہ شامت تا قیامت نہیں ہے۔ دو چار دن کی بات ہے۔پولیس والے اپنے ہیں پکڑے جانے والے بھی بیگانے نہیں ہیں۔یہ کوئی سیاست دان تو نہیں جن کے درمیان مصالحت نہ ہو سکے۔پرانا اڈا ہے پرانے واقف کار ہیں۔خبر ہے کہ ایک روز قبل اسلام آباد میں ہونے والے ڈیپارٹمنٹل بورڈ میں گریڈ 18سے 19میں پولیس سروس کے 17افسروں کو ریگولر ترقی دیدی گئی ہے ترقی پانے والوں میں ربنواز خان،صباستار،مسعوداحمد ملک،ملک محمد اصغر،رانا عبدالعزیز،سید غضنفر علی شاہ سمیرااعظم،عبداللہ احمد،توقیر محمد نعیم،آصف امین،احمد محی الدین،کاشف ذوالفقار، نصیب اللہ خان،فراز احمد،سردار ماروان خان،عبداللہ اور شیلا شامل ہیں۔