کوریا اور ہم....سیکھنے کا معکوس عمل
اختر شیرانی کی پردیس میں پریشانی یہ تھی.... ”ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہوگا چاند“.... لیکن صدر آصف علی زرداری کے ساتھ شاید معامہ اُلٹ ہوا۔اُن کے دیس میں آئے دن اتنے نئے”چَنّ“(چاند)چڑھتے ہیں کہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا جاتی ہیں۔اِ س مسلسل بیزاری اور چاند بازی سے چند دن سکون حاصل کرنے صدرآصف علی زرداری نے جنوبی کوریا کے سرکاری دورے کا فیصلہ کیا۔سرکاری دورہ تھا،سو روایتی سرکاری ٹھاٹھ باٹھ،روایتی بات چیت۔اِس روایتی بات چیت کی خوبی یہ ہے کہ بعض اوقات” سرکاری لائن“ اتنی مضحکہ خیر ہوتی ہے کہ سننے اور دیکھنے والا سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سچ ہے تو جھوٹ کیسا ہوگا؟
موصوف نے خاصا وقت سرمایہ کاروں سے ملاقاتوں میں صرف کیا۔اُنہیں ترغیب دلائی کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔بہت سے کوریائی گروپ پاکستان میں کامیابی سے کاروبار کررہے ہیں۔بقول میڈیا کے صدر آصف علی زرداری نے اُنہیں راز کی بات سے آگاہ کیا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لئے جنت ہے،لہٰذا وہ کسی بھی صورت میںیہ جنت ہاتھ سے نہ جانے دیں!!!
اُصولاً ایسے سفارتی دورے وزیراعظم کا فریضہ ہیں کہ وہ ملک کے چیف ایگزیکٹو ہیں،لیکن جمہوریت کے اِس جنگل میں فی الحال بادشاہی صدرآصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے، لہٰذا قانون بھی اُن کا،روایت بھی اُن کی، کوریا کے لوگ بالعموم بامروت لوگ ہوتے ہیں،اجنبی سے بھی ملیں تو جھک کر آداب کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔عمر اور عہدے کا لحاظ بہت ہے۔اختلاف کے باوجود خاموشی کو اِس لئے ترجیح دیتے ہیں کہ پاسِ عزت ہے ۔ کوریا کے کلچر میں ایک انگریزی محاورے کا عملی مظاہرہ اکثر رائج ہے ،یعنی دوستوں کے منہ کی عزت۔شاید اِسی مروت کا نتیجہ ہے کہ میزبانوں نے پوچھنے کا تردّد نہ کیا کہ ایک ایسا ملک جہاں صرف رواں سال میں 43ڈرون حملوں میں325لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔محرم الحرام اور ایک دینی حمیت کے سلسلے میں امن وامان کے نام پر ملک کے رگ وپے اینٹھ گئے۔مجموعی امن وامان کا یہ حال ہے کہ اغوا برائے تاوان،کراچی میں گرتی لاشیں، بلوچستان میں خوف اور بدامنی کا راج ہے ،دیگر صوبوں میں بھی معاملات میں بگاڑ اور انتشار نمایاں ہے۔ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر دس ارب ڈالر سے بھی کم سطح پر آچکے ہیں۔ آئی ایم ایف کی حالیہ رپورٹ نے بہت سے اندیشوں کو زبان دی ہے۔ واشنگٹن میں وزیر خزانہ کی سربراہی میں پاکستانی وفد کو نئے پروگرام کے لئے کوئی ہاتھ پکڑائی نہیں دے رہا ہے۔ملک میں گیس کی ہاہا کار، سٹرکوں سے اب عدالتوں او رحکومت کے ایوانوں میں مچی ہوئی ہے۔بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک بار پھر اپنی اصلیت کی طرف گامز ن ہے۔اِس ماحول میں رہتے ہوئے جنوبی کوریا کے سرمایہ کاروں کو یہ اطلاع بہم پہچانا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے لئے جنت ہے،بڑے حوصلے کا کام ہے۔
سرمایہ کاری کا سیاسی اور انتظامی تسلسل اور مضبوطی سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔موجودہ سیاسی حالات میں الیکشن کی آمد آمد کی وجہ سے نئے حکومتی ڈھانچے کی بنیادیں رکھی جارہی ہیں۔نئے سیاسی اتحاد، حد بندیاں، نئی صف بندیاں، اِن حالات میں تو موجودہ سرمایہ کار بھی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں چہ جائیکہ نئے سرمایہ کار آگے آئیں۔صدر زرداری کا کام تھا،”سرکاری لائن“کے مطابق پاکستان کے تاثر کو بہتر بنانا، سو وہ اُنہوں نے بنایا۔ اُنہوں نے بار بار اِس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستانی جنوبی کوریا کی حیرت انگیز معاشی ترقی سے سیکھنے کا خواہش مند ہے۔اُن کی یہ خواہش ہمیں ماضی کے کئی جھروکوں میں لے گئی۔
ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں پاکستان نے پانچ سالہ پروگرام کے تحت ایوب دور میں صنعتی ترقی کا سفر شروع کیا۔مشہور ہے کہ پاکستان کی اِس ابتدائی کامیابی کا جائزہ لینے اور سبق سیکھنے جنوبی کوریا کے ماہرین پاکستان آئے۔آج پچاس سال کے بعد ہمارا اعجاز یہ ہے کہ ہم جنوبی کوریا سے اِس خواہش کا اظہار کررہے ہیں کہ ہم آپ سے سیکھنے کے خواہش مند ہیں!! گذشتہ پچاس سال میں ایشیاکے چند ممالک نے حیرت انگیز معاشی ترقی کی۔اِن ممالک کو ایشیائی ٹائیگرز اور معاشی معجزے سے بھی تعبیر کیا گیا،جنوبی کوریا اِن ہی ممالک میں سے ایک ہے۔
دوسری جنگ عظیم اورانیس سو اکاون کی کوریائی جنگ کے بعد کوریا شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم ہوگیا۔دونوں ممالک میں نظام حکومت بھی الگ الگ ہیں۔شمالی کوریا میں کمیونسٹ اور جنوبی کوریا میں سرمایہ داری ۔جنگ کے بعد امریکی افواج مستقل جنوبی کوریا میں ٹھہر گئیں۔جنگ کی تباہ کاریوں اور غربت نے عوام کی زندگی کوعذاب بنائے رکھا۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان نے جنوبی کوریا پر قبضہ کئے رکھا۔انیس سو اکسٹھ میں ایک فوجی انقلاب کے ذریعے جنرل پارک نے حکومت سنبھالی اور نئے حالات کا منفرد ادراک کیا۔اُنہیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ ایک مضبوط معاشی جنوبی کوریا ہی بہترین دفاعی حکمت عملی ہے۔اُنہوں نے مختصر وقت میں ایک بہترین تجربہ کار ٹیم کھڑی کی۔ایک کے بعد ایک ایسے معاشی پروگرام ترتیب دئیے ،جن سے جنوبی کوریا کی معیشت کی نئی بنیادیں رکھی گئیں۔گو اِن اقدامات کی اُس وقت عالمی مالیاتی ادارو ں نے شدید مخالف کی،لیکن صدر پارک نے حیرت انگیز مہار ت اور دیانت داری سے اِن اقدامات پر عمل کیا اور کروایا۔
اِن اقدامات میں نئی کرنسی کا اجرائ، سیول،بوسان ہائی وے کی تعمیر،عالمی معیار کی سٹیل ملز کی تعمیرصنعتی ترقی کے لئے نجی شعبے کے سرمایہ کاروں کو حکومتی آشیر باد،بڑے صنعتی گروپوں، یعنی کا راستہ بنایا۔معاشی وسائل کی مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری میں حکومتی رہنمائی(جس کا بنیادی ماڈل جاپا ن سے مستعار لیا گیا)، برآمدات کے لئے تمام تر وسائل اور کوششوں کا ارتکاز، وعلی ہذا القیاس۔ستر کی دہائی کے اختتام تک جنوبی کوریا صنعتی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو چکا تھا۔تاریخ کا ایک جبر یہ بھی ہے کہ اِس صنعتی سفر میں انسانی حقوق کے سلسلے میں بے جا سختی روا رکھی گئی۔ جنوبی کوریا کی صنعتی ترقی کا یہ بان انیس سو نواسی میں اپنے ایک گارڈ کے ہاتھوں قتل ہوا۔صدر پارک کی ہلاکت کے بعد جنوبی کوریا کاایک دوسرا سفر شروع ہوا۔اسی کی دہائی میں اولمپکس کا انعقاد ہوا۔ کوریا بہت سے صنعتی میدانوں میں عالمی مسابقت میں شامل ہوگیا،مثلاً آٹو موبائیل، الیکٹرانکس،مشینری، جہا ز رانی، کیمیائی اور دیگر بہت سے میدان۔آمریت سے جمہوریت کا سفر بھی طے ہوا۔دو سابق صدور جو فوجی جرنیل بھی تھے، بعد از صدارت انصاف کے کٹہرے میں لائے گئے اور سزا پائی۔1997ءکے معاشی بحران نے جنوبی کوریا کی چولیں ہلا کر رکھ دیں ،لیکن دو سال میں ہی جنوبی کوریا اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوگیا۔اِس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی جنوبی کوریا سے ہیں۔
انگریزی کے ایک محاورے کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ راتوں رات ترقی کے لئے عموماً پندرہ یا بیس سال کی محنت درکار ہوتی ہے۔صدرآصف علی زرداری کا جنوبی کوریا کی صنعتی ترقی کا راز جاننے کا جذبہ اپنی جگہ پر قابل قدر ہے ،لیکن صنعتی ترقی صرف مفاہمی سیاست پر کاربند رہنے سے نہیں ہوسکتی۔اِس کے لئے ایک جامع اور مربوط پروگرام کی ضرورت ہے۔ سالہا ہا سال تک من حیث القوم اِس پر کاربند رہنے میں ہی اِس کی کامیابی مضمر ہے۔ حال ہی میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی نئی رپورٹ میں مژدہ سنایا ہے کہ کرپشن انڈکس میں ہم نے مزید”ترقی “کرلی ہے۔نئے سیاسی اتحاد،مفادات کی صف بندیاں اور اداروں کی باہمی کھینچا تانی کی موجودگی میں اندیشہ ہے کہ جنوبی کوریا سے سیکھا ہوا صدرآصف علی زرداری کا سبق رائیگاں نہیں جائے گا!!!