انقلاب اور کربلا

انقلاب اور کربلا
انقلاب اور کربلا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


تاریخ عالم میں جتنے انقلاب برپا ہوئے، اُن کے مشترکہ نکات کے مطالعہ سے انقلاب فہمی کا باب کھل سکتا ہے۔
شرائط انقلاب یہ ہیں:
(1) مکمل سماجی تبدیلی کو انقلاب کہتے ہیں۔ انقلاب کے لفظی معنی ہیں الٹ دینا، یعنی جزوی تبدیلی یا پیوند کاری انقلاب نہیں ہوتی۔
اِس کسوٹی پر اسلام کو رکھنا مناسب ہو گا کہ کیا اسلام سے پہلے کے عرب معاشرے میں اسلام مکمل تبدیلی لا سکا؟
اسلام سے پہلے کا عرب معاشرہ قبائل میں منقسم تھا۔ کوئی مرکزی حکومت نہیں تھی۔ رواج تھا، قانون نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ضابطہ ¿ قانون تھا۔ نہ سماجی یا سیاسی ادارے تھے جو عرب دنیا کو ایک مرکز سے منسلک کر سکتے۔ بین الاقوامیت کا کوئی تصور نہیں تھا۔ طاقت حق تھی، مگر حق طاقت نہیں تھا، توہمات نے سماج کو ذات کی دلدل میں پھنسا دیا تھا۔ عورت کو نہ تحفظ حاصل تھا، نہ عزت۔ اس پسماندہ صحرائی معاشرے کا کوئی مربوط معاشی ڈھانچہ نہیں تھا۔ غلامی جبر کی اندوہناک صورت میں مروج تھی، قبائلی نظام نہیں ،صرف معاشرے کی اکائی کو توڑتا تھا، بلکہ مذہبی انتشار کو بھی جنم دیتا تھا۔ ہر قبیلہ اپنے آباﺅ اجداد کے کارناموں کو شاعرانہ مبالغے کے ذریعے مافوق الفطرت حدود میں لے جاتا تھا۔ اِس طرح قبائلی تفاخر کی وجہ سے اُن کے اجداد دیوتا کے درجے پر فائز ہو جاتے اور اُن کے بتوں کی پرستش شروع کر دی جاتی۔ اسلام کے بعد جو معاشرہ تشکیل دیا گیا، وہ مکمل طور پر مختلف تھا۔
وہ ایک متحد معاشرہ تھا۔ قیادت مثالی تھی، مرکزی حکومت تشکیل دی گئی۔ ایک ضابطہ قانون و اخلاق وجود میں آیا۔ حق کی طاقت تسلیم کر لی گئی۔ توحید نے وحدت ِ فکرو عمل پیدا کر دی۔ زندگی کا ہر عمل خدا کی خوشنودی کے تابع ہونے کی وجہ سے عبادات قرار پایا۔ مساوات انسانی نے غلامی کو برادری میں بدل دیا۔ شراکت و وسائل نے بیت المال جیسے ادارے قائم کر دیئے۔ تفاخر کے معیار بدل دیئے۔ قربانی اور تقویٰ کو فضیلت حاصل ہوئی۔ خوفناک طبقاتی نظام کا خاتمہ کر دیا۔ قرآن کہتا ہے کہ نظام الہٰیہ میں مستضعفین کو طاقت ملے گی اور مستکبرین اُن کے سامنے جوابدہ ٹھہریں گے۔

اسلام اِس لئے انقلاب تھا کہ اس نے ماقبل اسلام معاشرے کو یکسر بدل دیا۔ یہ ایک مکمل تبدیلی تھی۔ میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ اور خطبہ ¿ حجتہ الوداع انقلاب اسلامی کی تفسیر ہیں۔ میثاق مدینہ ایسے معاہدوں سے شعور انسانی واقف نہ تھا۔ آج کا انسان اقوام متحدہ کے چارٹر پر فخر کرتا ہے، لیکن اس چارٹر میں بھی امتیازات موجود ہیں۔ آج کے سپر پاور کے تصور سے استعماری جبر کی بدبو آتی ہے، اُس کے برعکس میثاق مدینہ نے خدا کو سپر پاور مان کر وحدت ِ انسانی کی بنیاد رکھی۔ میثاق مدینہ قبائلی شعور انسانی کو عالمگیریت سے متعارف کراتا ہے۔ اِسی طرح صلح حدیبیہ انسان کی بالغ نظری اور وسعت قلبی کی دلیل اور امن برائے بقائے باہمی کی اساس ہے۔ یہ معاہدہ قبائلی تفاخر اور گروہی اَنا پر کائناتی تدبر کی فتح ہے۔ حجتہ الوداع میں جو نظریات بیان کئے گئے، وہ اُس دور میں فکری سطح پر موجود ہی نہیں تھے۔ حجتہ الوداع میں دیئے گئے تصورات دراصل ایک پسماندہ بدوی معاشرے سے مستقبل میں ایک پُرقوت جست کے مترادف ہیں۔
(2)انقلابات عالم میں ایک یہ شرط بھی نظر آتی ہے کہ انقلاب اُس وقت آتا ہے ،جب پہلے سے موجود نظام اس قدر بے نتیجہ اور غیر موثر ہو جائے کہ اُس میں تخلیقی اہلیت مفقود ہو جائے۔ نمو اور پیداوار کی صلاحیت ختم ہو جائے، ترقی کرنے کے امکانات نہ رہیں، یعنی معاشرہ دیوار سے جا لگے، باہر نکلنے کا راستہ دکھائی نہ دے، تو پھر اُس نااہل نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا واحد راستہ انقلاب ہوتا ہے۔
اسلام نے ماضی میں منجمد قبائلی نظام کو ملت کے تصور سے آشنا کر کے ایک وسعت پذیر شناخت دی۔ بنیادی اکائی، یعنی مسجد کی مقامی مرکزیت کو کعبہ کی عالمی مرکزیت سے منسلک کیا۔ فتح مکہ کے وقت کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کا عمل ایک انقلابی اقدام تھا۔ رسالت ِ مآب اور حضرت علی ؓ کا بتوں کو توڑنا، صرف وحدانیت کا اعلان ہی نہیں تھا، بلکہ قبائلی نظام کے شکنجے کو توڑنا بھی مقصود تھا۔ یہ بت شکنی، قبائلی شناخت، جھوٹی اَنا اور اجداد پرستی کو ختم کرتی تھی، جس نے عوام کو ایک جھوٹی خیالی دُنیا میں قید کر رکھا تھا۔

خلافت راشدہ اسلامی نظام کی مکمل تصویر ہے۔ خلافت راشدہ نے ادارے قائم کئے۔ چاروں خلفائے راشدین کے انتخاب میں عوام کی مرضی اور رائے موجود تھی۔ خلیفہ قابل ِ رسائی تھا۔ عوام کے سامنے جوابدہ تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد بنی اُمیہ کا خاندان اقتدار پر قابض ہو گیا۔ یہ ملوکیت کہنے کو تو خلافت تھی، مگر دراصل ایک نظام جبر تھا، جس میں جناب ِ ابو ذر غفاری ؓ جیسے معزز صحابی رسول کو کسی شہر میں ر ہنے کی اجازت نہیں تھی اور آخر کار انہیں ربذہ کے صحرا میں کسمپرسی کے عالم میں موت سے ہمکنار ہوتا پڑا۔ اتفاقاً ایک گزرنے والے قافلے نے اُن کا جنازہ پڑھا۔ اِس غریب الوطنی کی وجہ یہ تھی کہ ابو ذر ؓ قرآن کی آیتیں اور احادیث پڑھ کر اِس نظام جبر پر کاری ضرب لگاتے تھے۔ ارتکازِ دولت،عیش و آسائش اور شان و شوکت کی زندگی کو اسلام دشمنی گردانتے تھے۔ حاکموں کو بیت المال قائم کرنے کی ہدایت کرتے تھے، جس پر ردِ انقلاب قوت اِس سچے انقلابی کی دشمن ہو گئی....اِس نظام جبر کے خلاف صدائے احتجاج نبی اکرم کے گھرا نے نے بھی بلند کی۔ کربلا اِس کا نکتہ ¿ عروج ہے۔ جذبہ¿ کربلا کو زندہ رکھنا، انقلاب اسلام کو زندہ رکھنا ہے۔
(3) انقلابات گزشتہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی انقلاب ایک مربوط فکری نظام کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا۔ اسلامی انقلاب قرآنی فکر پر استوار کیا گیا اور قرآن قیامت تک ضابطہ ¿ ہدایت ہے، لہٰذا قرآن اسلامی انقلاب کو تسلسل مہیا کرتا ہے۔ قرآن نے اُن معاملات میں انسان کو حکم الٰہی کا پابند نہیں کیا، جس پر بنیادی معاشرتی تبدیلی کا امکان تھا، ایسے امور میں اجتہاد کی آزادی عطا کرنا دراصل انسان کی دانائی اور حق پرستی پر خدا کے بھروسے کا اظہار ہے۔ اسلام انسانی تغیّر پذیری سے زندگی کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے۔اسلام کسی خاص وقت یا علاقے میں منجمد نظام نہیں، بلکہ تغیرّ پذیر، متحرک اور زندہ نظام ہے، جو تبدیلی کے تقاضوں سے ہم آہنگی کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے اسلام انقلاب ِ مسلسل ہے۔
(4) ہر انقلاب کا ایک نیو کلی¿س یا مرکزہ ہوتا ہے۔ اسلام اگر انقلاب ہے تو اِس کا مرکزہ ہونا چاہئے۔ داعی انقلاب، رسول اللہ کی ذات گرامی نہ ہوتی تو یہ انقلاب برپا نہیں ہو سکتا تھا۔ رسالت اسلام کی ناشر بھی ہے، شارح بھی اور قوت ِ نافذہ بھی۔ یہ عام انقلاب نہیں۔ اسلام انسان کے بارے میں فکرِ خداوندی کا مجموعی اور حتمی نتیجہ ہے۔ اسلام اللہ کی نگرانی میں ایسا داخلی انقلاب ہے، جس نے خارجی دُنیا کو قائم رکھنا ہے، لہٰذا اس نیو کلی¿س کو عصمت، صدق، وفاداری اور علم و کردار میں بے مثال ہونا چاہئے اور اس مرکزہ کی تعلیم و تربیت براہ راست رسالت کی ذاتی نگرانی میں ہوئی ہو۔

بنی بخران کے عیسائیوں سے مباہلہ میں جھوٹوں پر لعنت کرنے کے لئے رسول اکرم نے جن سچوں کو اسلام کی سچائی کی تصدیق کرنے کے لئے چُنا وہ حضرت علی ؓ، فاطمتہ الزہرہ ؓ، حسنؓ اور حسین ؓ تھے....یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ پانچ ہی انقلاب اسلامی کا مرکزہ تھے۔ تمام سچے انقلابات کسی بالا تر حکمران طبقے کا تختہ اُلٹ کر کچلے ہوئے مظلوم لوگوں کو طاقتور بناتے ہیں۔ انقلاب جن سے طاقت اور اختیار چھینتا ہے، وہ مراعات یافتہ طبقہ انقلابی تحریک کو کچلنے کے لئے صف آراءہو جاتا ہے، یعنی ردِ انقلاب قوت کی دشمنی سے ہی مرکزہ کی پہچان ہوتی ہے۔ اگر مباہلے والے پانچ اشخاص اسلامی انقلاب کا مرکزہ ہیں، تو دیکھنا یہ ہو گا کہ ردِ انقلاب قوتوں نے کسے مرکزہ سمجھ کر اُسے تباہ کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب جس نے مرکزہ کو تباہ کرنے کی کوشش کی وہی ردِ انقلاب قوت ٹھہری۔ ہجرت سے پہلے رسول پاک کے پیغام انقلاب کو ناکام کرنے کے در پے کون تھے۔ حبشہ میں پناہ لینے والے مسلمانوں کا پیچھا کس نے کیا۔ مرکزہ کے مرکز رسول اللہ کو قتل کرنے کے لئے قبائل کو اکٹھا کس نے کیا۔ اُن کے آبائی شہر مکہ سے ہجرت کرنے پر پیغامبر عظیم ؓ کو کس نے مجبور کیا۔ پھر مدینہ میں بھی رسول پاک پر جنگ بدر، جنگ اُحد اور جنگ خندق کس نے مسلط کی؟ ردِ انقلاب قوتوں کا پہلا ہدف محمد کی ذات گرامی تھی۔ اُس کے بعد علی مرتضیٰ ؓ تھے، انہیں مسجد میں شہید کیا۔ امام حسن ؓ کو زہر دیا۔
امام حسین ؓ سے یزید نے بیعت طلب کی۔ بیعت سے مراد اپنے آپ کو کسی پر بیچ دینا ہے۔ بیعت کرنے والے کا نظریہ اور رائے بیعت طلب کرنے والے کے حکم کے تابع ہوتی ہے، یعنی انقلاب اسلامی کے نمائندے سے کہا جا رہا تھا کہ وہ رِدِ انقلاب قوت کے ہر حکم کی تعمیل کرنے کا عہد کرے۔ امام حسین ؓ یہ نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ یزید اپنے تقویٰ یا علم یا انقلاب اسلامی کی ترویج و استحکام کے لئے تخت پر نہیں بیٹھا تھا، بلکہ معاویہ ؓ بن ابو سفیان کا بیٹا ہونے کی وجہ سے برسر اقتدار لایا گیا تھا۔ جب امام حسین ؓ نے کربلا میں قیام کیا اُس وقت پوری دُنیا میں اُن سے برتر عالم، متقی اور اسلام ،فہمی رکھنے والا شخص کوئی نہیں تھا۔ امام حسین ؓ کی بیعت دراصل ردِ انقلاب قوت پر انقلاب اسلامی کو بیچ دینے کے مترادف ہوتی۔ انقلاب کے تسلسل میں رخنہ ڈال دیا جاتا۔ خانوادہ ¿ رسول کی لازوال قربانی نے حق و باطل کے درمیان خط ِ امتیاز کھینچ دیا۔ اقتدار کی طاقت کے سامنے نظریہءانقلاب اور حق پرستی پر قائم رہ کر امام حسین ؓ نے ایک نئے ماڈل کی تدوین کی۔ ہر دور کے انقلابی کو یہ پیغام انقلاب دیا کہ لامحدود وسائل، کثرت تعداد اور لامحدود اختیار انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتے۔ اکیلا حق پرست، لاکھوں کروڑوں مفاد پرستوں کو بے بس کر سکتا ہے۔اسلام انجماد نہیں۔ اسلام ہر دور میں تغیرّ مسلسل ہے۔ یزیدیت ارتکاذِ دولت اور طبقاتی معاشرہ قائم کرتی ہے۔ حسینیت مساوات ِ محمدی کی علمبردار ہے۔ کربلا نے مظلومیت کو ایک نئی طاقت سے آشنا کیا۔ ہر دور میں نظام جبر کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے کا نام کربلا ہے۔

مزید :

کالم -