اس سے پہلے اتنا واضح شہر کا منظر نہ تھا
شہر لاہور میں بورڈ آف ریونیو محکمہ اشتمال میں موضع نیاز بیگ، ہنجروال، شادے وال جسے سہ دیہات کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، 1960ءمیں اشتمال اراضی کا اعلان کیا، حالانکہ اِسی دور میں یہاں جوہر ٹاﺅن، مصطفی ٹاﺅن وغیرہ ہاﺅسنگ سکیموں کا اعلان کیا گیا۔ ایک طرف اراضی کی 5 مرلے، 10 مرلے، ایک کنال، دو کنال کی تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا اور دوسری طرف اراضی کا اشتمال شروع کر دیا۔ 29 ستمبر1979ءکو ان سہ دیہات کے اشتمال کی سکیم منظور ہوئی اور کئی ہزار افراد کو ان بھیڑیوں کے سامنے بے رحمی سے پھینک دیا گیا کہ زور آور طاغوتی عناصر کمزور افراد کی اچھی زمینیں ہتھیالیں اور ان کو اس کے عوض کم قیمت کی زمینیں دے دیں، اس طرح لامتناہی مقدمات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس اشتمال میں اس علاقے (یعنی موضع ہنجروال) میں پیپلز پارٹی کے معروف ایم پی اے شاہ محمد محسن کے بہنوئی نے، جسے فضل دین اور اس کے بچوں کو زندہ جلانے کی سزا میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا، نہر پر 16 کنال 7 مرلے رقبہ ڈلوا لیا اور وہ میرے ہاتھ 2ہزار روپے کنال میں بیچ دیا۔کچھ عرصے بعد مَیں نے وہ رقبہ ٹیکنوگاڑیز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ہاتھ 25ہزارروپے فی کنال کے حساب سے فروخت کردیا۔ اس اراضی پر شاہ محمد محسن ایم پی اے نے اپنے ماموں برکت علی کے ذریعے شفع دائر کردیا۔ اس میں سے 11 کنال 7 مرلے کا شفع خارج ہو گیا اور 5 کنال کا شفع کامیاب ہو گیا۔
اس رقبے پر اس وقت معروف چائنیز ریسٹورنٹ سشوآں بن چکا ہے اور اب یہاں پر اراضی کی قیمت 5 کروڑ روپے فی کنال ہو چکی ہے۔ اس قیمتی زمین کو ہتھیانے کے لئے بعض بااختیار اور نہایت اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں نے اپیل دائر کرکھی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ملک افتخار کھوکھرنے،جو آج کل ریونیو ایمپلائز ہاﺅسنگ سوسائٹی کے وائس پریذیڈنٹ ہیں، یہ پیشکش کی کہ مَیں ایک کروڑ 25 لاکھ روپے لے کر اپنی بیٹیوں کو جن کے نام پر یہ رقبہ مَیں نے خریدا تھا، سے ایک وکالت نامے پر دستخط کروا دوں اور وہ راضی نامے کی ڈگری حاصل کر کے اس اربوں روپے کے قیمتی رقبے کو ہتھیا لیں۔ مَیں نے صاف انکار کر دیا۔ اِسی طرح محکمہ اشتمال نیاز بیگ قانوں گو نے مجھے بار بار اس رقم میں اضافہ کر کے پیشکش کی، لیکن مَیں نے ٹھکرا دی۔ مَیں نے انہیں کہا کہ مَیں نے یہ زمین 2 ہزار روپے فی کنال خریدی تھی اور 25 ہزار وپے فی کنال کے حساب سے بیچ کر حسب منشا منافع حاصل کر لیا تھا۔ اب میرا اخلاقی اور قانونی فرض ہے کہ جن کے ہاتھ مَیں نے یہ رقبہ بیچا، ان کے مفادات اور حقوق کا تحفظ کروں۔ آپ مجھے بے ایمان بنانے کے لئے سوا کروڑ یا ڈیڑھ کروڑ کی پیشکش کرتے ہیں، اگر مجھے آپ 30 ارب بھی دیں، تو مَیں یہ بے ایمانی کرنے پر تیار نہیں۔
کچھ عرصہ ہوا مَیں عبدالرزاق ایم پی اے کے صاحبزادے محمد جمیل افسر اشتمال اراضی نیاز بیگ کی عدالت میں اپنے کسی کام سے گیا۔ مَیں نے کہا کہ آپ کا قانوں گو اقبال حسین شاہ مجھے اس قسم کی پیشکش کر رہے ہیں جو اس وقت وہاں موجود تھا، محمد جمیل نے کہا: 25 لاکھ تک تو مَیں بھی ایمانداری کا بھرم رکھ سکتا ہوں اس سے اوپر میرا دل بھی ڈولنے لگتا ہے۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ مَیں نے آپ کے سسر میاں فضل حق کو، جو حافظ آباد میں بھٹوں والے کہلاتے تھے، 1953ءمیں کٹھا ویسٹ اینڈ نلی کالری کے حصول میں قانونی مشورہ دیا تھا، جس پر خوش ہو کر مجھے قانونی مشیر مقرر کر کے اس کالری کا 15 فیصد حصہ دینے کی پیشکش کی تھی، تو مَیں نے انہیں کہا تھا، مَیں مشوروں کی فیس نہیں لیتا۔ اس کالری سے انہوں نے اربوں روپے کمائے اور چٹے اَن پڑھ ہونے کے باوجود وہ ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ کے رکن اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے صدر بن گئے۔
کچھ عرصہ قبل اسی افسر اشتمال اراضی کے عہدے پر لالیاں کے ظفر احمد لالی فائز ہو گئے۔ مَیں نے انہیں کہا، کیا آپ جانتے ہیں کہ تقسیم ملک سے قبل لالیاں میں ایک پیر قطبی تھے، جنہوں نے اپنی شرعی عدالت قائم کررکھی تھی۔ جب کوئی شخص کسی کی بیوی کو اغواءکرتا، وہ اسے پیر قطبی کی عدالت میں لے جاتا۔ پیر صاحب سوا روپے کی کورٹ فیس حاصل کرتے اور لالیاں کے قصبے میں ڈھول بجا کر اُس کے شوہر کو اپنی طرف سے نوٹس دے دیتے اور اس سے درخواست لکھوا کر خلع کی شرائط لکھوا لیتے اور اسے خلع کی ڈگری دے دیتے۔ عدت کے دوران وہ خاتون ان کے حجرے میں رہتی بعد میں ان کا نکاح پڑھوا کر رخصت کردیتے۔ جب اس کے پہلے شوہر کو خبر ملتی وہ بھاگا ہوا پیر قطبی کی عدالت میں حاضر ہوتا اور پیر صاحب اسے کہتے، تم میری عدالت میں اپیل دائر کر دو اور اڑھائی روپے کورٹ فیس ادا کر دو، پھر وہی ڈھول والا ڈرامہ دہراتے اور ایک ڈگری اس کے حق میں جاری کر دیتے۔ مَیں نے اسے کہا، اشتمال اراضی کی عدالتیں بھی پیر قطبی کی طرز کی عدالتیں ہیں۔ اول قسم کا رقبہ اشتمال میں کسی کو ڈال دیتے ہیں، وہ آگے دو تین ہاتھوں میں فروخت ہو جاتا ہے، پھر اس پر فائق حق رکھنے والا مالک اپیل دائر کرتا ہے اور جس بے چارے نے وہ رقبہ خریدا ہوتا ہے، اسے اطلاع بھی نہیں دی جاتی اور صرف سکیم ہولڈر کو مطلع کیا جاتا ہے اور ایک ڈگری اسے بھی دے دی جاتی ہے، یعنی بیک وقت دو مالکان اپنی اپنی ڈگریاں سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔
اپیلیں دائر ہوتی ہیں، بورڈ آف ریونیو میں یہ اپیلیں ممبران کے پاس جاتی ہیں تووہ بجائے اس کے کہ خود ریکارڈ ملاحظہ کریں، پٹواری سے رپورٹ منگواتے ہیں، جو سائل پٹواری کو زیادہ سے زیادہ پیسے دیتا ہے، رپورٹ اس کے حق میں چلی جاتی ہے اور ہر افسر اشتمال اس رپورٹ پر یہ لکھ کر کہ ”رپورٹ پٹواری مفصل ہے“ دستخط کرتا جاتا ہے اور یہ ممبران ریونیو بورڈ اپنی عاقبت خراب کرتے ہوئے اس رپورٹ کی بنیاد پر فیصلے صادر کر دیتے ہیں۔ ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ اس ظفر احمد لالی نے جو ریونیو ایمپلائز کو آپریٹو سوسائٹی میں پلاٹ حاصل کیا، وہ اس نے چار بار بیچا، جب قیمت بڑھ جاتی تو پہلے خریدار کو سفارشیں اور زور ڈلوانے پر کچھ رقم قسطوں میں لوٹا دیتا اور نئے گاہک کو وہ پلاٹ بیچ دیتا۔
مَیں نے اُن سے کہا، اشتمال کی عدالتیں بھی پیر قطبی کی عدالتیں ہیں، کل مجھے ملک افتخار کے بڑے بھائی ملک نثارکا ٹیلی فون آیا، تو مَیں نے ان سے درخواست کی کہ اپنے بھائی افتخار کو کہیں کہ کم از کم اس ملک میں ایک آدمی کو ایمانداری کا بھرم رکھنے کی اجازت دے دیں اور آئے دن مجھے بے ایمان بنانے کی پیشکش نہ کریں:
میں پس ِ دیوار زنداں، سب پس ِ دیوار تھے
اس سے پہلے اتنا واضح شہر کا منظر نہ تھا!