حکومت، عوام اور مسائل
ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں صاف گو، شریف النفس اور ایماندار گورنر نصیب ہوا ہے۔ پنجاب کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ چودھری محمد سرور اس کے گورنر ہیں۔ گورنر پنجاب صوبے سمیت ملک کو ’’برطانیہ‘‘ بنانے کے لئے کوشاں ہیں، جبکہ دیگر حکمران چاہتے ہیں کہ پاکستان ’’پیرس‘‘ بن جائے۔پیرس اور برطانیہ بنانے کے حوالے سے ایک کشمکش سی جاری ہے۔ گورنر پنجاب میں یہ خوبی ہے کہ وہ صاف گو انسان ہیں اور بعض اوقات ان کی یہی خوبی ان کے لئے مشکلات کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ حکومتی سیٹ اپ میں جہاں بھی خامیاں اور کوتاہیاں ہیں، گورنر پنجاب دھڑلے سے ، ڈنکے کی چوٹ پر اس کا اظہار کردیتے ہیں۔ وہ ذرا بھی نہیں جھجکتے۔ان کی سیاسی تربیت برطانیہ میں ہوئی ہے، جہاں ٹرین حادثے پر وزیر ریلوے استعفا دے دیتا ہے، جہاں غربت سے موت ہو جائے تو وزیراعظم مستعفی ہو جاتا ہے، لیکن پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہے، یہاں ٹرین کا حادثہ ہو تو وزیر ریلوے کا بیان ہوتا ہے کہ مَیں کیوں استعفا دوں، ٹرین مَیں تو نہیں چلا رہا تھا۔ افسوس اسے یہ کوئی نہیں کہتا کہ ٹرین نہیں، سیٹ اپ تو آپ چلا رہے تھے۔
بہرحال گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو شکوہ ہے کہ ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ گورنر کہتے ہیں، ہر مال میں جعلسازی ہو رہی ہے، حتیٰ کہ جعلساز مافیا درباروں ،مزاروں ،اولیاء اللہ اور حکمرانوں کو بھی معاف نہیں کرتا۔ گورنر کا ایک تقریب میں خطاب کے دوران کہنا تھا کہ جعل ساز مافیاکی جرات مندی دیکھیں کہ اس نے دربار حضرت داتا گنج بخشؒ اور گورنر ہاؤس میں بھی جعلی واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا دیا ہے۔گورنر کے اس انکشاف کے بعد اب ڈر لگنے لگا ہے کہ لاہور بھر میں لگنے والے تمام واٹر فلٹریشن پلانٹ ہی جعلی ہوں گے، کیونکہ جس مافیا نے گورنر ہاؤس میں جعلی پلانٹ نصب کر دیا ہے، وہ عام علاقوں کو کیسے بخشیں گے۔ چودھری محمد سرور نے ایک اور سچ بول دیا کہ ہمارے اداروں کے افسران نے اپنی ڈیوٹی کو عوامی خدمت کی بجائے اپنی نوکری کو ’’کریانے کی دکان‘‘ سمجھ رکھا ہے، روز دکان پر جاتے ہیں، دن بھر ’’سودا‘‘ فروخت کرتے ہیں اور شام کو بھاری ’’کمائی‘‘ لے کر گھر کو لوٹتے ہیں۔یہ عوامی خدمت نہیں، بلکہ بزنس کررہے ہیں۔
ہم گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کو اس کی بنیادی وجہ بھی بتا دیتے ہیں۔ ان دکاندار (افسران) حضرات کو یہ دکان (افسری) میرٹ پر نہیں ملی، میرٹ پر نوکری ملی ہوتی تو یہ عوام کی خدمت کرتے۔ اصل میں انہوں نے یہ دکان (افسری) پیسوں سے خرید کی ہوتی ہے۔ یہاں گلی میں سولنگ کی تعمیر کے ٹھیکے سے لے کر نوکری تک ہر چیز بکتی ہے۔یہاں میرٹ صرف کتابوں اور تقریروں میں نظر آتا ہے۔ اس کا عملی زندگی سے دور پار کا بھی کوئی واسطہ تعلق نہیں۔ جب ایک بندہ نوکری خرید کر لیتا ہے تو ظاہر ہے پھر وہ خدمت تو نہیں کرے گا، بلکہ کاروبار کرے گا اور آپ نے درست کہا کہ افسروں کے دفاتر کریانے کی دکانیں ہیں۔گورنر پنجاب کی سچ کی سزا بھی یہ دکاندار گورنر پنجاب کو خوب دیتے ہیں۔ سول سیکرٹریٹ میں گورنر کے حکم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
پنجاب کی افسر شاہی تو آج کل ویسے ہی بہت زیادہ مُنہ زور ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تمام اعلیٰ افسر وزیراعلیٰ کے تعینات کردہ ہیں۔ان کی براہ راست وزیراعلیٰ کے ساتھ ’’ہیلو ہائے‘‘ ہے، وہ افسر کسی اور کو خاطر میں ہی نہیں لاتے۔ مسلم لیگ(ن) کے چند درباری وزراء کے سوا عام وزیر یا ایم این اے، ایم پی اے تو کسی کھاتے میں نہیں آتے۔ مسلم لیگ(ن) کے بہت سے ورکرز کو شکوہ ہے کہ انہوں نے پارٹی کے لئے قربانیاں دی ہیں، لیکن پارٹی قیادت انہیں گھاس تک نہیں ڈالتی۔ ہم نے عوام سے ووٹ مانگے تھے، انہیں سبز باغ دکھائے تھے کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئے گی تو آپ کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے، لیکن عوام کے مسائل حل ہونا تو دور کی بات ہے، پارٹی کے ورکرز اور عہدیداروں کے مسائل بھی جوں کے توں ہیں۔ شروع میں حمزہ شہباز نے یوتھ پر توجہ دی، ہر حلقے میں میٹنگز کا سلسلہ شروع کیا، لیکن اب وہ بھی پیچھے بٹ گئے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ پوری کی پوری حکومت اور پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اور ’’کورایشو‘‘ عمران خان ہی بن کر رہ گئے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 24میں سے 25گھنٹے جاگتے ہیں، لیکن ان کی اس بیداری کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے۔ عوام آج بھی مشکلات کا شکار ہیں، لوڈشیڈنگ کا بحران آج بھی اسی طرح منہ کھولے کھڑا ہے، بجلی کے بلوں میں ہوش رہا اوور بلنگ کے ذمہ داروں کا تعین ہوا ،نہ انہیں سزائیں سنائی جا سکیں، نہ ہی عوام کو ریلیف دیا گیا۔ عوام پوچھتے ہیں کہ اس اربوں روپے کے ڈاکے کا ذمہ دار کون ہے؟ شہباز شریف طوفانی دورے تو کرتے ہیں، لیکن ان کا طوفان مہنگائی کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا۔ ان کی انگلی کے اشارے سے درجنوں افسران تو معطل ہو جاتے ہیں، لیکن ان کی انگلی قیمتوں میں روز بروز ہوتا اضافہ نہیں روک سکتی۔ کارکنوں اور عہدیداروں کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی، لیکن ٹرانسپورٹ مافیا نے کرایوں میں کمی نہیں کی۔ لاری اڈوں میں صرف کرائے کم کروانے کے بینرز لگانے سے کرائے کم نہیں ہوتے۔ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے افسران اپنے دفتروں تک محدود ہیں، جنہیں ان کا حصہ ان کی دہلیز پر مل جاتا ہے۔ان کی دکانداری خوب چل رہی ہے، عوام جائیں جہنم میں۔ ایسی صورت حال میں عوام میں بددلی پھیلے گی۔ لوگ متنفر ہوں گے۔ اب بھی وقت ہے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کارکنوں اور عوام کے حقیقی مسائل کا ادراک کرے۔ گورنر کا دکھ کوئی معمولی بات نہیں، ان کی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسائل حل نہ کئے جائیں تو حکومت کے لئے خطرات بڑھ جایا کرتے ہیں۔