داعش اور پاکستان:چند معروضات
’’داعش‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہمارے بڑے بڑے معتبر لکھاری مضامین لکھ رہے ہیں اور سیاست دان، الیکٹرانک میڈیا پر آ کر اپنے تجزیئے دے رہے ہیں۔پاکستان کے ایک سابق وزیر داخلہ (رحمن ملک صاحب) ایک شب ’’ڈان‘‘چینل پر بیٹھے یہ انکشاف کر رہے تھے کہ انہوں نے اپنے دور میں اس فتنے کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ یوسف سلفی کون ہے اور کون نہیں ہے، اس پہ تبصرہ کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ بہت جلد اہلِ وطن کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ جو کچھ اپنے دورِ وزارت میں کہہ رہے تھے، سچ تھا۔
6دسمبر2014ء کے ’’ڈان‘‘ کے صفحہ اول پر بھی ایک لمبا چوڑا تجزیہ کیا ہوا تھا کہ داعش کی امارت کے سلسلے میں مختلف گروپوں کے درمیان کشیدگی جاری ہے۔ملا عمر آف افغانستان اور ابوبکر بغدادی آف عراق کے درمیان زیر زمین چپقلش چل رہی ہے کہ امیر المومنین کون ہے۔ خلیفتہ المسلمین اور امیر المومنین کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے اور ان کے اختیارات کی حدود کیا ہیں،ان نکات پر بھرپور خامہ فرسائی کی گئی تھی۔ القاعدہ اور درجن بھر دوسری جہادی تنظیموں کے ماضی و حال پر تبصرہ تھا۔ یعنی کوئی ہی دن جاتا ہو گا جب پرنٹ میڈیا پر اس موضوع پر کوئی نہ کوئی کالم نہ آیا ہو گا۔ اُدھر ٹاک شوز والے بھی مجبور ہیں۔ جب دھرنوں اور مذاکرات سے بات چلتی ہے تو چیف الیکشن کمشنر کے تقرر تک چلی جاتی ہے اور پھر پاکستان کے بڑے بڑے شہروں کو بند کرنے کے جواز اور عدمِ جواز پر مناظروں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ میڈیا کو دیکھنے، سننے اور پڑھنے والا ایک عام ناظر، سامع اور قاری دن رات انہی موضوعات کے حصار میں گھرا رہتا ہے۔ اس دعوے کے ثبوت میں اخبارات کے ادارتی صفحات اور نیوز چینلوں کے ٹاک شوز آپ کے سامنے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ آج اُمتِ مسلمہ بالعموم، عالمی طاقتوں کی سٹرٹیجک یلغاروں کے نرغے میں گھری ہوئی ہے۔ بہت سے ایسے ہی موضوعات پر قارئین سے مخاطب ہونے کو دل چاہ رہا تھا۔ چلو آج اِسی ’’داعش‘‘ ہی کو لے لیتے ہیں۔کئی روز سے کئی سوالات راقم السطور کے ذہن میں پیدا ہوتے رہے ہیں۔ آپ ان کو شکوک کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ان بدیہی شکوک و شبہات کو ایک ایک کر کے مختصراً زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔
اول یہ کہ ’’داعش‘‘ کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں۔ ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ یہ فتنہ اُن مغربی طاقتوں کی ایجاد ہے جو بالخصوص مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے ہمارے خطے کو لایعنی قسم کے موضوعات میں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ القاعدہ، اسامہ بن لادن، الزرقاوی، الظواہری، البغدادی، الجولانی اور ملا عمر وغیرہ شطرنج کے مہروں کے طور پر استعمال کئے جا رہے ہیں۔ مغرب کے نامہ نگار اور کالم نویس گویاEmbedded صحافی ہیں، جو اس نفسیاتی جنگ میں عالمی طاقتوں کے آل�ۂ کار بنے ہوئے ہیں۔ ان کے تجزیئے اور ان کی سٹوریاں آئے روز دنیا بھر کے روزناموں اور ہفت روزوں میں شائع ہو رہی ہیں اور ہم ان پر ’’ایمان‘‘ لا رہے ہیں۔ ان سارے صحافیوں کا ہدف مشرق وسطیٰ کا وہ علاقہ ہے جو تیل کی پیداوار کا گڑھ ہے یا جنوبی ایشیا کا وہ خطہ ہے جو جوہری وار ہیڈز اور میزائل ٹیکنالوجی کی تخلیق و تولید میں عالمی قوتوں کی پیروی کر بیٹھا ہے اور اس کی سزا بھگت رہا ہے۔ پہلے افغانستان کو کہا گیا کہ اسامہ کو ہمارے حوالے کرو کہ اس نے ہمارے دو برجوں کو مسمار کر دیا ہے، عراق کو کہا گیا کہ اس کے پاس ہمہ گیر تباہی کے ہتھیار موجود ہیں، شام کو کہا گیا کہ اس کے پاس جان لیوا اور آدم کش گیسوں کے ٹنوں ذخائر ہیں، ان کو تباہ کرو، لیبیا کو بھی اِسی طرح کے الزامات میں لپیٹا گیا اور بہارِ عرب (Arab Spring) کی نئی اصطلاح وضع کی گئی، پھر ناٹو کو یورپ سے اٹھا کر ان علاقوں میں لایا گیا اور ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، صرف وہی ملک بچ سکا جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا تھا، بے دام غلام تھا اور مستقبل قریب و بعید میں اس کے ’’بھٹکنے‘‘ کا کوئی خطرہ نہ تھا یا وہ ملک تھا جس کے پاس جوہری وار ہیڈز تھے اور ان کے ڈلیوری سسٹم بھی موجود تھے۔ اس کو اندر سے کھوکھلا کرنے پر زور رکھا گیا۔ اس کے گلے کو اتنا دبایا گیا کہ بس اس کی سانسیں چلتی رہیں۔ یہ نہ ہو کہ اس کی انگلی جوہری وار ہیڈ کے بٹن پر جا پڑے۔ ایران کو بھی اس لئے نہ چھیڑا گیا کہ اسرائیل کی سرزمین اس کے میزائلوں کی زد پر تھی۔ آج اس سارے خطے پر نگاہ کریں، ان کی معاشرت بسمل ہے یا معیشت جاں بلب ہے۔
قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ کیا داعش اور اس طرح کی دوسری ’’اسلامی‘‘ تنظیمیں صرف مسلم ممالک ہی کو ہدف بنانے کی ذمہ دار ہیں؟ خلافت کا نام لیا جاتا ہے تو کیا اس خلافت میں ترکی اور جنوبی یورپ شامل نہیں؟
خلافت عثمانیہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ رومانیہ، بلغاریہ، مشرقی ترکستان، یوگوسلاویہ، بوسنیا، بلکہ یونان تک کیا اس خلافت کا حصہ نہیں تھے؟ کیا آج کوئی ابوبکر بغدادی ان یورپی ممالک کا بھی رخ کر رہا ہے؟۔۔۔ کیا فاطمی خلافت، مصر اور اس کے نواحی ممالک پر حکمران نہیں تھی؟ کیا کوئی الظواہری اُدھر بھی جا رہا ہے؟۔۔۔ کیا سپین پر مسلمانوں نے800سال تک حکمرانی نہیں کی؟۔۔۔ کیا کوئی امیر المومنین اندلس کا نام بھی لے رہا ہے؟
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی ممالک مغربی طاقتوں کے ان حربوں کا ادراک کریں۔ داعش کے اصل بانیوں اور موجدوں کا سراغ لگائیں اور ان تنظیموں کے پردے میں جو نئی ’’گریٹ گیم‘‘ کھیلی جا رہی ہے اس کو سمجھیں۔
اقبال نے کتنا سچ کہا تھا:
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش!
اے گرفتارِ ابوبکرؓ و علیؓ ہشیار باش!
(اے وہ کہ تو پوشیدہ باتوں کو نہیں جانتا۔ کم از کم ظاہر باتوں کو تو دیکھ۔۔۔ اور اے ابوبکرؓ اور علیؓ کے جھگڑوں میں پڑنے والے ہوش کر!)
دوم یہ کہ قارئین کرام اس سوال پر غور کریں کہ یہ داعش والے یورپ اور امریکہ میں کیوں نہیں دیکھے جاتے؟۔۔۔ خلافتِ راشدہ کے امیر المومنین تو آتش پرستوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے مراکزِ قوت میں پہنچ کر ان کو شکستِ فاش دیا کرتے تھے۔ یہ داعش والے کون سی خلافت کے داعی ہیں کہ اپنے ہی برادر ممالک اور اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں اور بہنوں کے گلے کاٹنے کو فتوحاتِ خلافت گردانتے ہیں؟
سوم اس بات پر بھی غورو خوض کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا یوسف سلفی کون ہے؟۔۔۔ کون ہے جو اس کو فنڈ کر رہا ہے؟ اس کے ہتھیار کہاں سے آ رہے ہیں اور اس کے پیرو کاروں کا حلقہ کن حضرات سے عبارت ہے؟۔۔۔ داعش والوں کی وال چاکنگ مَیں نے بھی دیکھی ہے، ان کے کالے جھنڈے مَیں نے بھی (اور آپ نے بھی) دیکھے ہیں، ان کا شائع شدہ لٹریچر میری نظر سے بھی گزرا ہے۔کئی روز پہلے ایک دوست نے مجھے داعش والوں کے شائع شدہ پمفلٹ دکھائے تھے۔ یہ سب لوگ وہی ہیں جو پہلے القاعدہ کے پیرو کار تھے اور اب کسی اور امیر المومین کے تابعِ فرمان ہونے میں پیش پیش ہیں۔ بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ البغدادی کو بھی اسامہ بن لادن ثانی بنا دیا جائے گا اور جو ’’تگ و دو‘‘ اسامہ کی تلاش کے لئے کی گئی تھی وہ اس نئے اسامہ کی تلاش میں بھی شروع کر دی جائے گی۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سب کردار ایک محدود اور مخصوص علاقے (مشرق وسطیٰ اور پاکستان) ہی میں آپ کو آپریٹ کرتے نظر آئیں گے اور آگے پیچھے کا باقی منظر صاف شفاف ہو گا۔۔۔۔ مقصد یہ ہے کہ یہ خطے غیر مستحکم رہیں۔۔۔۔
دو ماہ قبل داعش کے کسی ’’ہیڈ کوارٹر‘‘ سے ایک خط بنام وزیراعظم بھارت شری مودی بھی جاری ہوا تھا اور اس کے تذکرے میڈیا پر بھی ہوئے۔ مقبوضہ کشمیر میں بعض گھروں پر داعش کے کالے جھنڈے بھی لہرائے گئے۔کشمیر کے کور کمانڈر کا بیان بھی آیا کہ داعش کا یہ نیا خطرہ ایک حقیقی خطرہ ہے، لیکن اس کے بعد ’’چُپ چپان‘‘ ہو گئی۔ بارِ دگر، داعش کے کسی ہیڈ کوارٹر سے یہ فتویٰ صادر نہیں ہوا کہ پورے بھارت کو اس عظیم اسلامی سلطنت کے احیا سے ہمکنار کریں گے کہ جو غزنوی سے غوری اور پھر غوری بے بابر، نادر شاہ اور ابدالی کے اسلامی دور سے عبارت تھا۔
داعش کٹھ پتلیوں کی ڈوریں ہلانے والوں کی چالوں کا اندازہ کریں کہ انہوں نے کس مکاری سے اس گرینڈ آپریشن کو پلان کیا ہے۔ پاکستان میں داعش کی گاہ بگاہ موجودگی کا ’’چھڑکاؤ‘‘ اور بھارت میں وزیراعظم کے نام خط لکھ کر اس کی عالمی تشہیر کس سٹرٹیجک موو (Move) کی کڑیاں ہیں اس پر غور کیجئے۔
فوج میں حملوں کی کئی اقسام ہیں جن میں ایک قسم کو Fient کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ایک ایسا فریبی حملہ ہے جو باقاعدہ حملہ آور فوج اور اس کے اسلحہ بارود کے ہمراہ کیا جاتا ہے لیکن وہ اصل حملہ (Main Effort) نہیں ہوتا۔ اسے توجہ پلٹ حملہ (Diversionary Attack) یا Deception Attack کہا جاتا ہے۔ دشمن یہ سمجھتا ہے کہ حملہ فلاں جگہ کیا جا رہا ہے اس کے لئے باقاعدہ تیاریاں کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ حملہ آور فورس کے ہیڈ کوارٹر سے جھوٹ موٹ کی مواصلات بھی آن ائر کی جاتی ہیں تاکہ دشمن یہ سمجھے کہ یہ حملہ واقعی اصل حملہ ہے۔ لیکن یہ اصل حملہ نہیں ہوتا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں انFients کی ایک بڑی تعداد کا مطالعہ ایک دلچسپ موضوع ہے۔مغرب والوں نے یہ سب کچھ کئی عشرے پہلے پریکٹس کر کے کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ میرے نزدیک داعش کا یہ ’’شوشہ‘‘ بھی ایک ویسا ہی Fientہے۔ ہمارے چودھری نثار نے ٹھیک کہا تھا کہ داعش کا کوئی وجود پاکستان میں نہیں۔ رحمن ملک صاحب نے ٹی وی پر آ کر جس خدشے کا اظہار کیا ہے اس کی صداقت اس لئے مشکوک لگتی ہے کہ ملک صاحب کا زمانہ ماضی بن چکا ہے اور چودھری صاحب کا حال ناقابلِ تردید ہے۔
چہارم یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ کسی بھی خلافت (راشدہ امیہ، عباسیہ، عثمانیہ، فاطمیہ اور اندلیسہ) نے آج تک یہودیوں کے فتنے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔۔۔۔ مسلمانوں کا کون سا دور تھا جس میں یہودیوں کے غلبے سے صرفِ نظر کیا گیا تھا؟۔۔۔ لیکن القاعدہ اور داعش کی ساری تاریخ اٹھا کر دیکھیں۔ القاعدہ امریکہ کی مخالف تو تھی، لیکن وہ بھی اس اصل دشمن کے سامنے بے بس ہو کر دشمن کے غیر یہودی دوستوں (پاکستان) کو ہدف بناتی رہی، حالانکہ یہی یہودی ریاست، امریکہ کی دوست بلکہ ’’جانِ جاناں‘‘ تھی اور آج بھی ہے۔کیا داعش نے کبھی اسرائیل کا رُخ بھی کیا ہے؟ پچھلے دنوں میری نظر سے احمد رشید صاحب کا ایک کالم گزرا جس میں انہوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ داعش فی الحال اسرائیل کو اس لئے نہیں چھیڑ رہی کہ یہ اس کی ایک ٹیکٹیکل چال ہے!
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا