پورٹ قاسم پاور پلانٹ میں سیف الرحمان کا نام بھی آ گیا
کراچی (ویب ڈیسک) چین کے نام پر کراچی میں لگائے جانے والے پاور پلانٹ میں سابق سینیٹر سیف الرحمان کا نام سامنے آیا ہے جبکہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل افراد کا تعلق سے ہے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی میں پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی کے نام پر لگائے جانے والے کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ کو لائسنس دینے کیلئے نیپرا حکام پر حکومت کی اہم شخصیات کی جانب سے کافی دباﺅ ہے، پورٹ قاسم الیکٹرک پاور کمپنی کی جانب سے نیپرا کو کمپنی کے جس چائنیز (Zhong Halkiang) ڈائریکٹر کی جانب سے درخواست دی گئی ہے اس کے نام پر حیرت انگیز طور پر ایک فیصد شیئرز ظاہر کئے گئے ہیں۔ مذکورہ ڈائریکٹر جس کا رہائشی پتہ بیجنگ کا بتایا گیا ہے کا چینی پاسپورٹ نمبر pe002561 ہے دستاویزات میں شامل دیگر ڈائریکٹرز میں سے کسی کا بھی تعلق چین سے نہیں جبکہ کمپنی کی جانب سے سابق سینیٹر سیف الرحمان گارنٹر بنے ہیں دستاویزات میں ان کا پیشہ بزنس لکھا گیا ہے جبکہ ان کا ایڈریس 47 بی ماڈل ٹاﺅن لاہور لکھا ہے دستاویزات میں سیف الرحمان کے پاکستانی پاسپورٹ کا نمبر 35200-3449847-9 اور انکے والد کا نام امان اللہ خان لکھا گیا ہے کمپنی کا صدر دفتر دبئی میں بتایا گیا جس کا ایڈریس 307 اور 308 لیول تھری فنانشل ٹاور نارتھ ٹاور دبئی انٹرنیشنل فنانشل سنٹر ہے کمپنی کے نام پر 69 فیصد شیئرز بتائے گئے ہیں جبکہ کمپنی کے ایک اور ڈائریکٹر شین ڈیسائی (Shien Decai) کے نام پر ایک فیصد شیئرز ہیں کمپنی کے ایک اور ڈائریکٹر فیڈی باکوس (Fady Bakhos) جس کی شہریت تو لبنان کی بتائی گئی ہے تاہم اس کا ایڈریس ویسٹ بائے ویلا 7 شاہ 88- دوحہ قطر کی ہے کمپنی کے ایک اور ڈائریکٹر کا نام شہزاد شہباز ولد اعتزاز شہباز ہے جو برطانوی شہریت رکھتا ہے اور اس کو بھی کمپنی میں ایک فیصد کا حصہ دار بتایا گیا ہے حیرت انگیز طور پر اس کا رہائشی پتہ بھی ویلا 14 سرقہ بن امر سٹریٹ اولڈ ائیر پورٹ دوحہ قطر لکھا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیپرا میں لائسنس کی درخواست پے آرڈر کی جو رقم جمع کرائی گئی ہے وہ بھی کم ہے جبکہ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن میں 12 اگست کو کمپنی رجسٹریشن کرائی جانے کے اگلے روز ہی نیپرا کو جنریشن لائسنس کی درخواست دیدی گئی ہے کمپنی کی دستاویزات میں کمپنی کا چیف ایگزیکٹو کون ہے ، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ ذرائع کے مطابق کمپنی کراچی میں بجلی کی پیداوار کا لائسنس طلب کیا جا رہا ہے اور کمپنی کا صدر دفتر پاکستان میں اسلام آباد میں ظاہر کیا گیا ہے۔ نیپرا دستاویزات کے مطابق کمپنی کی دستاویزات میں کئی اہم معلومات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔ ان معمولات کی عدم موجودگی کی بناءپر لائسنس نہیں دیا جا سکتا ہے۔ دستاویزات کے مطابق مذکورہ پاور پلانٹ لگانے کے لئے سرمایہ کاری کو ظاہر نہیں کیا گیا بلکہ 75 فیصد لون ظاہر کیا گیا ہے اور لون کی مد میں آنے والے سرمایہ پر بجلی مہنگی ہو گی۔